طالبان کو کابل کا کنٹرول سنبھالے دو سال ہو چکے ہیں، جب کہ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے مطابق ان دو سالوں میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 64 فیصد اور دہشت گردی کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں میں 123 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ایسے حالات میں جبکہ پاکستان میں سکیورٹی کی مجموعی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بری امام کا سالانہ عرس جو پچھلے 16 سال سے نہیں ہو رہا تھا اسے 15 سے 16 اگست تک منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
اس بات کا فیصلہ گذشتہ ہفتے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیر صدارت بری امام کمپلیکس سے متعلق ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی نے کیا تھا جس کے ارکان میں جنرل (ر) افضل جنجوعہ، چیئرمین سی ڈی اے و کمشنر اسلام آباد کیپٹن (ر) نور الامین مینگل اور دیگر اعلی ٰ افسران بھی شامل ہیں۔ اس اعلان سے ایک بار پھر خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ کیا عرس کی فول پروف سکیورٹی کی ضمانت دی جا سکتی ہے؟
27 مئی 2005 کو بری امام مزار پر حملہ
اسلام آباد میں مدفون صوفی بزرگ شاہ عبد الطیف المعروف بری امام 1617 میں سید کسراں چکوال میں پیدا ہوئے تھے اور انہوں نے 91 سال کی عمر میں 1708 میں نور پور شاہاں اسلام آباد میں وصال فرمایا تھا۔
اسی کی مناسبت سے ان کا سالانہ عرس پنجابی مہینہ ویساکھ کے پہلے عشرے کے اتوار سے شروع ہو کر جمعرات کو ختم ہوتا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2005 میں مئی کے مہینہ میں ان کا عرس آیا تھا۔ عرس کی سالانہ تقریبات کا آخری روز تھا اور مزار کے احاطے میں مجلس جاری تھی کہ اسی دوران ایک خود کش حملہ آور نے دھماکہ کر دیا جس کے نتیجے میں 20 افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جب کہ 80 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ جس وقت دھماکہ ہوا وہاں آٹھ سے دس ہزار لوگ مزار کے احاطے میں موجود تھے۔
اس سانحے کو 16 سال ہو چکے ہیں مگر بری امام کا سالانہ عرس نہیں ہو سکا۔ اگرچہ تین چار سال پہلے سکیورٹی کی صورت حال کافی بہتر بھی ہو گئی تھی۔ بری امام کا مزار حساس علاقے میں واقع ہے جہاں صدر اور وزیراعظم کے گھر بھی ہیں اور سفارتی علاقہ بھی ہے اس لیے سکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر عرس پر پابندی رہی ہے۔
گذشتہ 15 سالوں میں کتنے مزاروں پر حملے ہوئے؟
ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق 2000 سے یکم اگست 2023 تک پاکستان میں دہشت گردی کے 66659 واقعات ہوئے ہیں۔ تاہم اس دوران مزاروں پر کتنے حملے ہوئے، اس کے اعداد و شمار کہیں دستیاب نہیں ہیں۔
پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹدیز نے انڈپینڈنٹ اردو کو 2008 سے اب تک یعنی تقریباً15 سالوں کا ڈیٹا فراہم کیا ہے جس کے مطابق اس عرصے میں 31 مزاروں پر حملے ہوئے یا انہیں دھماکے سے اڑایا گیا۔
ان میں سب سے ہلاکت خیز حملہ 16 فروری2017 کو لعل شہباز قلندر کے مزار سیون شریف پر ہوا تھا جس میں 91 لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
لاہور میں معروف صوفی بزرگ داتا گنج بخش ہجویری کے مزار کو دو بار نشانہ بنایا گیا ہے۔ پہلا حملہ یکم جولائی 2010 کو کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ دوسرا حملہ آٹھ مئی 2019 کو ہوا تھا جس میں 10افراد ہلاک ہوئے۔
اس کے علاوہ جن معروف صوفی درگاہوں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے ان میں بابا فرید گنج شکر پاک پتن، عبداللہ شاہ غازی کراچی، سخی سرور ڈیرہ غازی خان، شاہ نورانی خضدار اور پیر رکھیل شاہ فتح پور بھی شامل ہیں۔
ان تمام حملوں کی ذمہ داری یا تو طالبان نے قبول کی ہے یا داعش نے کیونکہ دونوں ہی سخت گیر اسلام کے پیامبر ہیں جو مزاروں اور صوفیا کے سخت خلاف ہیں۔ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈیٹا کے مطابق گذشتہ 15 سالوں میں مساجد، امام بارگاہوں، مدارس اور مزاروں پر ہونے والے کل حملوں کی تعداد 181 ہے جن میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد تقریباً ایک ہزار ہے۔
اسحاق ڈار یہ عرس کیوں منانا چاہتے ہیں؟
پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ لاہور میں داتا دربار اور اسلام آباد میں بری امام سے انہیں خصوصی روحانی رغبت ہے۔
انہوں نے بری امام کے مزار کی تعمیر نو بھی خصوصی دلچسپی لے کر کروائی اور اس کے لیے قومی خزانے سے فنڈز فراہم کیے۔ آج بری امام کا مزار جس خوبصورت کمپلیکس کی صورت میں موجود ہے یہ انہی کی خصوصی دلچسپی کا مظہر ہے۔
اس حوالے سے جب بری امام دربار سے وابستہ معروف شخصیت راجہ سرفراز اکرم سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ 2005 کے دھماکے کے بعد اگلے سال بری امام کا سالانہ عرس ہوا تھا مگر اس کے بعد سے ہمیشہ سیکورٹی خدشات کو بہانہ بنا کر اس کی اجازت نہیں دی گئی۔
2015 میں بھی عرس کی تیاریاں مکمل تھیں مگر سکیورٹی اداروں نے اس کی اجازت نہیں دی۔ اب اس سال اگست میں سالانہ عرس کا اعلان کیا گیا ہے جس کا مقصد عرس کو 14 اگست سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ ہم یہ عرس 13 اور14 اگست کو منانا چاہتے تھے مگر اس خیال سے کہ اس دوران سیکورٹی ہائی الرٹ ہو گی اس لیے عرس کو دو دن آگے لے گئے ہیں۔
سجادہ نشین درگاہ بری امام پیر سید محمد علی گیلانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہم عرس کے حامی ہیں لیکن اسحاق ڈار کے اس اچانک اعلان سے ایک طبقے کی دل آزاری ہوئی ہے کیونکہ اس درگاہ سے وابستہ ایک مکتب فکر ایسا ہے جو محرم الحرام میں عرس اور میلوں ٹھیلوں کے انعقاد کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔
بری امام کی عرس کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس میں شرکت کے لیے پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے دیگر شہروں سے زائرین کی پیدل ڈالیاں آتی ہیں جن کے ساتھ سینکڑوں لوگ آتے ہیں، جبکہ بسوں اور گاڑیوں کے قافلے اس کے علاوہ ہوتے ہیں۔
کیا سکیورٹی ادارے حساس علاقے میں واقع اس مزار کے تحفظ کی ضمانت دے پائیں گے؟
سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امتیاز گل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وزرا کا کام امور ریاست چلانا ہوتا ہے، مزاروں کی سرپرستی کرنا نہیں، ایسے مرحلے پر جب پاکستان میں پراکسی ٹیررازم کی لہر چل رہی ہے ان حالات میں مزار ات اور ان کے عرس بھی پراکسی ٹیررازم کے سہولت کاروں کے سافٹ ٹارگٹ ہو سکتے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔