کے ٹو بیس کیمپ سے اوپر کی جانب گھورتے ہوئے ساجد علی سدپارہ کرہ ارض کے دوسرے سب سے بڑے پہاڑ کو اپنے والد محمد علی سدپارہ کی آخری آرام گاہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ساجد سدپارہ نے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لگا کر آکسیجن کے کنستروں، ٹوٹے ہوئے خیموں اور کئی دہائیوں سے پھینکی گئی کوہ پیماؤں کی رسیاں صاف کرتے ہوئے آٹھ ہزار 611 میٹر (28,251 فٹ) اونچی چوٹی کو سر کیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ساجد کہتے ہیں کہ ایک ہفتے کے دوران ان کی پانچ رکنی ٹیم کے ٹو سے تقریبا 200 کلوگرام (400 پاؤنڈ) کچرا اٹھا کر واپس لائی۔
ساجد کے مطابق یہ ان کے والد اور لیجنڈری کوہ پیما محمد علی سدپارہ کے لیے خراج عقیدت ہے۔
یہ اس جگہ کے لیے احترام کا اظہار ہے جہاں وہ فطرت کے ساتھ جڑے ہوئے تھے اور جہاں 2021 میں ’وحشی پہاڑ‘ پر باپ بیٹے کی مہم ناکام ہونے کے بعد ان کی لاش موجود ہے۔
ساجد نے کے ٹو کے بیس کیمپ میں اے ایف پی کی ٹیم کو بتایا: ’میں یہ کام اپنے دل سے کر رہا ہوں۔ یہ ہمارا پہاڑ ہے ہم محافظ ہیں۔‘
پاکستان نے بلندیوں کو بلند کیا
کے ٹو اس وقت وجود میں آیا جب پانچ کروڑ سال قبل انڈیا ایشیا سے ٹکرایا تھا جس کے نتیجے میں پاکستان کے موجودہ شمال مشرقی گلگت بلتستان کے علاقے قراقرم کے پہاڑ ابھرے تھے۔
اسے یہ نام 1856 میں برطانوی سروے کرنے والوں نے دیا تھا جو قراقرم رینج میں دوسری چوٹی کی نشاندہی کرتا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قریبی پہاڑوں کے الفانیومک نام مقامی طور پر استعمال ہونے والوں ناموں کی نسبت زیادہ مشہور ہو گئے۔
کے ٹو نیپال کے ایورسٹ سے زیادہ وحشی، ناقابل تسخیر اور تکنیکی طور پر مشکل چڑھائی کے طور پر اپنی ساکھ رکھتا ہے۔
پہلی بار 1954 میں اطالوی باشندوں نے اسے سر کیا تھا۔ اس پر موسم سرما کی ہوائیں 200 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہیں اور درجہ حرارت منفی 60 ڈگری سینٹی گریڈ (منفی 76 فارن ہائیٹ) تک گر جاتا ہے۔
لیکن یہ اپنی قدیم سہ رخی تصویر کے ساتھ بنیادی جذبات کو بھی جلا بخشتا ہے۔ ایک ایسی چوٹی کی شکل جو ایک بچہ بھی بنا سکتا ہے لیکن اس کی پہلی جھلک کوہ پیماوں کو پر جوش کر دیتی ہے۔
یہ ایک عظیم الشان گلی کے آخر میں ایک قربان گاہ کی طرح کھڑا ہے۔ غروب آفتاب اس کے خدوخال گہرے اور برفانی ڈھلوانوں کو سنہری کر دیتا ہے۔
سیاح اور پیراگلائیڈرز اس کے سائے میں گھومنے آتے ہیں۔ ایک مشہور فوٹوگرافر نے اس منظر کو ’پہاڑی دیوتاؤں کے تخت والا کمرہ‘ قرار دیا۔
سینٹرل قراقرم نیشنل پارک (سی کے این پی) کے وارڈن محمد اسحاق کا کہنا ہے کہ ’ہم اسے زندگی سے زیادہ پیار کرتے ہیں کیونکہ زمین پر ایسی خوبصورتی والی کوئی جگہ نہیں ہے۔‘
اس شاندار پس منظر میں علی سدپارہ سفید فام، مغربی کوہ پیما اشرافیہ میں ایک مقامی ہیرو کے طور پر نمایاں تھے جنہوں نے آٹھ ہزار میٹر سے بلند دنیا کی 14 ’سپر چوٹیوں‘ میں سے آٹھ کو سر کر رکھا تھا۔
اے ایف پی کی ٹیم کی کے ٹو تک رہنمائی کرنے والے 48 سالہ کوہ پیما عباس سدپارہ نے کہا کہ ’پاکستان کا نام علی کی وجہ سے بلند ہوا۔‘
دو سال قبل ساجد اپنے والد اور دو غیر ملکیوں کے ساتھ موسم سرما کے دوران کے ٹو پر چڑھنے کی کوشش کر رہے تھے جب بیماری کے باعث انہیں مجبورا واپس آنا پڑا۔
علی سدپارہ اور ان کے ساتھ جانے والے دونوں کوہ پیما بعد میں ’بوٹل نیک‘ کے نیچے جان سے چلے گئے۔ جو چوٹی سے پہلے آخری حصے پر جمی ہوئی سمندری لہر کی طرح دکھائی دیتا ہے۔
ساجد نے اپنے والد کی آخری رسومات کیمپ فور کے قریب ادا کیں تھیں۔
انہوں نے 23 سے زائد ایفل ٹاورز کی اونچائی والے اس پہاڑ پر موجود ان باقیات کو دفن کرنے سے پہلے اس جگہ پر جی پی ایس کوآرڈینیٹس کے ساتھ نشان لگائے۔
صفائی ستھرائی پر یقین
ساجد اس فطری دنیا کی غیر معمولی تعریف بیان کرتے ہیں جسے ان کے والد نے انہیں سونپ دیا تھا۔
ساجد کہتے ہیں کہ ’یہاں یہ سادہ زندگی اور یہ قدرتی زندگی گزارتے ہیں، یہ سارا گاوں میری دنیا تھا۔ میں سب سے زیادہ فطرت سے اس میں جڑا ہوا ہوں۔‘
ساجد کہتے ہیں کہ ’ہم صرف ذہنی سکون کے لیے پہاڑوں پر رہنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم کوئی کچرا دیکھتے ہیں تو احساس بالکل مختلف ہوتا ہے۔‘
عباس سدپارہ کے مطابق ’کے ٹو اب اتنا خوبصورت نہیں رہا جتنا پہلے ہوا کرتا تھا۔ ہم نے اپنے ہاتھوں سے اس کی خوبصورتی کو تباہ کر دیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن ساجد جو آٹھ ہزار میٹر کی آدھی چوٹیوں کو بغیر کسی اضافی آکسیجن کے سر کر چکے ہیں کہتے ہیں کہ اسلام میں ایک کہاوت ہے کہ: ’صفائی نصف ایمان ہے۔‘
انہوں نے وضاحت کی ’چوٹی پر چڑھنا ایک الگ چیز ہے۔ صفائی ایک ایسی چیز ہے جو آپ ذاتی طور پر دل سے محسوس کرتے ہیں۔‘
ٹپنگ پوائنٹ
سنہ 2019 میں زمین کے سب سے گہرے مقام ماریانا ٹرینچ میں سمندر سے 11 کلومیٹر نیچے پلاسٹک کا کچرا دریافت ہوا تھا۔
تجارتی مقاصد کے لیے پہاڑی سیاحت کی وجہ سے سیاحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد بلند چوٹیوں تک پہنچ رہی ہے۔ ماؤنٹ ایورسٹ بھی کوڑے کرکٹ کے بڑے ڈھیروں کے باعث بدنام ہو رہا ہے۔
کے ٹو پر گذشتہ سیزن میں چوٹیاں سر کرنے والے ریکارڈ 150 سیاح آئے تھے جس کی وجہ سے پاکستان میں بھی کوہ پیماؤں کی جانب سے کچرا چھوڑنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
ناروے کی 37 سالہ کوہ پیما کرسٹین ہریلا کا کہنا تھا ’دو پہاڑ ایسے ہیں جہاں کچرا ایک مسئلہ رہا ہے اور وہ ہیںکے ٹو اور ماونٹ ایورسٹ۔‘
ہریلا نے اسلام آباد میں اے ایف پی کو بتایا: ’یہ میرا یا آپ کا کچرا نہیں ہے، یہ ہمارا کچرا ہے۔‘