نیٹ فلکس کی قندھار ہائی جیکنگ سیریز میں کتنا سچ ہے؟

یہ سیریز زیادہ تر تو ہائی جیکنگ کے ان پہلوؤں سے متعلق ہے جن کا وہاں ہوائی اڈے پر موجود صحافیوں کے لیے دیکھنا یا مشاہدہ کرنا مشکل ہے لیکن بعض باتیں یقیناً ہماری آنکھوں کے سامنے ہوئیں اور ان کی عکاسی قدرے درست انداز میں نہیں کی گئی۔

کوئٹہ سے انڈین طیارے کی ہائی جیکنگ کی کوریج کے لیے آئے پاکستانی صحافی۔ یہ تصویر ہائی جیکنگ کے خاتمے کے ساتویں روز بنائی گئی ( انڈپینڈنٹ اردو)

سٹریمنگ پلیٹ فارم نیٹ فلکس کی نئی سیریز ’دی قندھار ہائی جیک آئی سی 814‘ نے 25 سال پرانی یادیں تازہ کر دیں۔ اگرچہ قندھار انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اس ہائی جیکنگ کی کوریج کے لیے گزارے آٹھ دن کبھی نہ بھولنے والا تجربہ تھا لیکن اس سیریز نے کئی مواقع پر حیران بھی کیا۔ بعض حقیقتوں کے ساتھ بھی ڈراما ہوا؟

اس وقت میں کوئٹہ میں بحثیت نامہ نگار تعینات تھا اور انڈیا سے آنے والی ہائی جیکنگ کی خبر کو دیگر عالمی خبروں کی طرح معمول کے طور پر دیکھ رہا تھا۔ اس وقت معلوم نہیں تھا کہ تین ممالک سے گھوم پھر کر یہ خبر ہمسایہ ملک افغانستان اور پھر قندھار جیسی جگہ پہنچ جائے گی۔

یہ سیریز زیادہ تر تو ہائی جیکنگ کے ان پہلوؤں سے متعلق ہے جن کا وہاں ہوائی اڈے پر موجود صحافیوں کے لیے مشاہدہ کرنا مشکل ہے لیکن بعض باتیں یقیناً ہماری آنکھوں کے سامنے ہوئیں اور ان کی عکاسی قدرے درست انداز میں نہیں کی گئی۔ دہلی میں کیا چل رہا تھا اور طیارے کے اندر کے حالات کیسے تھے، یہ سب خود نہیں دیکھا لیکن جو معلومات طالبان کی جانب سے بتائی جاتیں، ان ہی پر اکتفا کرنا پڑتا تھا۔

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

A post shared by Netflix India (@netflix_in)

مجھ سمیت کوئٹہ کے چند صحافی جن میں حاجی فیاض احمد، شہزادہ ذوالفقار، اے پی پی کے جواد حیدر، ڈاکٹر چشتی مجاہد (مرحوم)، اے ایف پی کے بنارس خان، آن لائن کے عرفان سعید، بی بی سی پشتو کے ایوب ترین اور ارشد بٹ طیارے کے لینڈ کرنے کے پہلے دن ہی شام تک وہاں پہنچ گئے۔ ان دنوں ویزے کا چکر نہیں تھا اور قندھار میں ٹیلیفون نمبر بھی کوئٹہ کا لگتا تھا۔

سب سے زیادہ حیران کن پہلو ہم سب صحافیوں کے لیے سیریز میں 17 کلو دھماکہ خیز مواد آر ڈی ایکس کی موجودگی کا دکھایا جانا ہے، حالانکہ ان سات دنوں میں کہیں سے بھی ہم نے 17 کلو مواد کا نہیں سنا۔ ہاں ہائی جیکروں کے پاس اسلحہ اور گرینیڈ کافی بتائے گئے تھے۔

اب اچانک اس مواد کی موجودگی کے بارے میں دیکھ کر حیرت ہوئی۔ کسی نے پوچھا کہ اب کیوں اس کا ذکر کیا گیا تو ذہن میں ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے کہ شاید انڈین حکومت مسافروں کی جانوں کو خطرہ بڑھا چڑھا کر بیان کرکے ہائی جیکروں سے مذاکرات اور بعد میں ان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے فیصلے کو ٹھوس بنیاد دینا چاہتی تھی تاکہ تنقید کی زد سے بچ سکے۔

پھر ایک مقام پر صحافیوں کو ایک باڑ کے پیچھے سے کوریج کرتے دکھایا گیا۔ یہ چند سیکنڈز کا شاٹ تھا لیکن غلط تھا۔ تمام صحافی ہوائی اڈے کی عمارت کے بائیں جانب برآمدے میں خیمہ زن رہتے تھے۔ طالبان نے ہمیں طیارے کی جانب جانے سے منع کر رکھا تھا لیکن درمیان میں کوئی رکاوٹ یا باڑ نہیں تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہوائی اڈے کی عمارت کے اندر ہم آزادانہ گھومتے پھرتے رہتے تھے بلکہ دسمبر کی شدید سردی کا مقابلہ کھلے میدان میں طیارے کے سامنے دھوپ سینک کر کیا کرتے تھے۔

قندھار کے ہوائی اڈے، پس منظر میں خشک بھورے پہاڑوں اور ماحول کی سیریز میں عکاسی ایفیکٹس کے ذریعے بہترین کی گئی ہے لیکن طالبان کے اُس وقت کے وزیر خارجہ وکیل احمد متوکل کی شکل و صورت اور قد میں مار کھا گئے۔ متوکل صاحب تمام امور دیکھ رہے تھے اور ان کا چہرہ قدرے گول تھا تاہم سیریز میں ایک پتلے منہ والے لمبے سمارٹ آدمی کو دکھایا گیا ہے۔

ایک اور جگہ بنانے والوں نے سیریز کے آخری سین میں اس وقت مار کھائی جب ہائی جیکر طیارے سے نکل کر گاڑی میں بیٹھ کر فرار ہو جاتے ہیں۔ انہیں کھلے چہروں کے ساتھ روانہ ہوتے دکھایا گیا لیکن مجھے یاد ہے کہ ان کے چہرے ماسک سے مکمل طور پر ڈھکے ہوئے تھے۔

خود انڈیا کے اندر کئی باتوں پر یہ سیریز تنقید کی پکڑ میں آئی ہے۔ کچھ تو اس میں افغان طالبان اور القاعدہ کو ہائی جیکنگ کا ذمہ دار ٹھہرائے جانے سے ناراض ہیں۔ ان کے خیال میں یہ سب کچھ کیا کرایا پاکستان کا تھا تو تمام ملبہ بھی اسی پر گرتا۔

ہائی جیکر بقول ان کے، پاکستانی اور رہائی پانے والے بھی اسی ملک کے تو سیریز میں اس کا کھل کر ذکر ہونا چاہیے تھا۔ اب نیٹ فلکس نے پاکستان میں بھی تو بزنس کرنا ہے کہ نہیں؟

ہائی جیکروں کو اصل نام سے نہ پکارنے پر بھی نیٹ فلکس انڈیا میں نشانے پر آیا اور سوشل میڈیا پر ’بین نیٹ فلکس‘ کا ٹرینڈ دیکھنے میں آیا۔

بعض لوگوں کو اعتراض ہے کہ ہائی جیکروں کو ہندو نام شنکر اور بھولا کیوں دیے گئے حالانکہ وہ سارے کے سارے مسلمان تھے۔

مزید اعتراض یہ کیا جا رہا ہے کہ ہائی جیکروں کا انسانی رخ زیادہ اجاگر کیا گیا ہے حالانکہ انہیں بطور دہشت گرد دکھانا چاہیے تھا۔ ایکس پر بعض لوگوں نے لکھا کہ ہائی جیکر زیادہ سمجھ دار ظاہر کیے گئے ہیں جب کہ ان کے مقابلے میں انڈین حکام کو نااہل اور تذبذب کا شکار دکھایا گیا ہے۔

ایک رہائی پانے والی مسافر کے بقول ہائی جیکروں کی جانب سے مسافروں کو مسلمان بنائے جانے کی کوشش کا بھی کوئی ذکر سامنے نہیں آیا۔ ہائی جیکروں کے سرغنہ ’ڈاکٹر‘ کی اس مقصد کے لیے لمبی لمبی تقریریں بھی نہیں دکھائی گئیں۔

شدید تنقید کے بعد نیٹ فلکس نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ اس سیریز کے ڈس کلیمر کو اپ ڈیٹ کر دیا ہے، جو اقساط شروع ہونے سے پہلے سکرین پر ظاہر ہوتا ہے۔ ’انڈین ایئر لائنز کی پرواز 814 کے 1999 کے ہائی جیکنگ سے ناواقف ناظرین کے فائدے کے لیے، ابتدائی ڈس کلیمر کو ہائی جیکرز کے اصلی اور کوڈ ناموں کو شامل کرنے کے لیے اپ ڈیٹ کر دیا گیا ہے۔‘

سیریز اور حقیقت میں یقیناً فرق ہوتا ہے۔ کچھ مرچ مصالحہ دلچسپی برقرار رکھنے کے لیے ضروری اجزا ہوتے ہیں، لہذا اس ڈرامے کو شاید ڈرامے کے طور پر ہی دیکھا جانا چاہیے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین