کینیڈی فائلز: یہی انکشاف ہے کہ کوئی انکشاف نہیں

صدر ٹرمپ نے کینیڈی کے قتل سے متعلق 64 ہزار دستاویزات جاری کر دی ہیں مگر کیا ان سے سازشی نظریے ختم ہو سکیں گے؟

صدر جان ایف کینیڈی اور ان کی اہلیہ کے 19 نومبر 2013 کو روسکو، الینوائے میں تاریخی آٹو پرکشش عجائب گھر میں رکھے مجسمے۔ میوزیم میں کینیڈی کی زندگی اور موت کی اشیا کا ایک بڑا ذخیرہ نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔ جان ایف کینیڈی کو 22 نومبر 1963 کو قتل کیا گیا تھا (سکاٹ اولسن/ اے ایف پی)

منگل کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم کے تحت سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے بارے میں تقریباً 64,000 دستاویزات عوام کے لیے جاری کر دیں۔ اس اجرا سے لوگوں کو توقع تھی کہ شاید کینیڈی کے قتل کے بارے میں کوئی نئے شواہد سامنے آ سکیں گے۔

کینیڈی کو 1963 میں ایک نشانہ باز نے قتل کر دیا تھا مگر اس کے بعد سے اب تک سازشی نظریوں کا ایک طوفان ہے جو تھمنے میں نہیں آ رہا۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ انہیں سی آئی اے نے قتل کروایا تھا۔ کوئی روس کا نام لیتا ہے، اور کسی کا خیال ہے کہ اس قتل کے پیچھے فیدل کاسترو کا ہاتھ تھا۔ اسی طرح سے سابق امریکی صدر لنڈن بی جانسن کو بھی ملوث کیا جاتا رہا ہے اور یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ امریکی حکومت خود اس معمے سے پردہ ہٹانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔

اب جو نئی دستاویزات سامنے آئیں تو صحافیوں، مؤرخین اور شوقیہ جاسوسوں نے کسی ایسی چیز کی تلاش میں صفحے کھنگالنا شروع کر دیے کہ کوئی نیا نکتہ، کوئی نیا زاویہ، کوئی چونکا دینے والا انکشاف سامنے آ سکے۔

اس کے بجائے ان دستاویزات میں جو سب سے بڑا انکشاف سامنے آیا وہ یہ تھا کہ ان میں کوئی انکشاف نہیں ہے۔  

فائلوں میں زیادہ تر ان معلومات کی بھرمار ہے جو ماہرین پہلے سے جانتے تھے۔ البتہ اخبار واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق کہیں کہیں کچھ دلچسپ نگینے موجود ہیں۔ مثال کے طور فیدل کاسترو کی جاسوسی کرنے والے امریکی جاسوسوں کا انکشاف، سوویت یونین کا کینیڈی کے قاتل کے بارے میں معلومات بیرون ملک امریکی پروفیسروں کو فراہم کرنا، اور سی آئی اے کی جاسوسی کے طریقۂ کار کی معلومات وغیرہ۔ لیکن ان میں کینیڈی کے قتل کے بارے میں کوئی نئی بات یا انکشاف شامل نہیں ہے جو پہلے ہی سے معلوم نہ ہو۔

جیسے جیسے حکومت کینیڈی کے قتل سے متعلق دستاویزات کو ڈی کلاسیفائی کرتی رہی ہے، سازشی نظریہ ساز اور کچھ مورخین کہتے تھے کوئی بہت بڑی بات چھپائی جا رہی ہے۔

لیکن نیشنل آرکائیوز کی جانب سے تقریباً 64,000 صفحات کے اجرا کے ساتھ یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ دہائیوں کی رازداری کا مقصد امریکی انٹیلی جنس آپریشنز کے ذرائع اور جاسوسی کے ناگوار طریقوں کو چھپانا تھا۔

صدر کینیڈی کے بھتیجے رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر نے ایک بار دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس ’ٹھوس ثبوت‘ ہے کہ سی آئی اے کینیڈی کے قتل میں ملوث تھی۔ لیکن افشا کردہ فائلیں اس ثبوت کی بجائے ایجنسی کے ایجنٹوں اور مخبروں، خفیہ کارروائیوں اور بجٹ کی تفصیلات سے بھری ہوئی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ راز چھوٹی چھوٹی تفصیلات تھے، کوئی بڑی خبر نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق افشا کردہ دستاویزات کینیڈی، رابرٹ ایف کینیڈی اور ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے قتل کے بارے میں معلوم حقائق کو چیلنج نہیں کر پائیں، البتہ ابھی مزید دستاویزات سامنے آنے کی توقع ہے۔  

محکمہ انصاف نے بدھ کے روز ڈاکٹر کنگ سے متعلق ایف بی آئی کی نگرانی کے ریکارڈ کو بند کر دیا کیوں کہ کچھ لوگوں نے اعتراض کیا تھا کہ ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں انکشافات ان کی شخصیت کو داغدار کرنے کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔

اس کے علاوہ ان دستاویزات میں کانگریس کے ملازموں کی ذاتی تفصیلات بھی شامل ہیں، جن میں سے کئی ابھی زندہ ہیں۔

دستاویزات کے تازہ ترین اجرا میں کوئی انکشاف نہیں ہوا، لیکن ان کے اجرا کے غیر منظم طریقۂ کار نے انہیں پڑھنا اور کام کی چیزیں نکالنا مزید مشکل بنا دیا۔

مثال کے طور پر، 1975 کی 693 صفحات پر مشتمل خفیہ سی آئی اے رپورٹ کے میں کچھ معاملات کا ذکر ہے جن میں ایجنسی ’اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا ہو گا۔‘ ان میں سی آئی اے کے بیرون ملک چھاپے، غیر قانونی نگرانی اور مختلف ’انتہائی حساس‘ آپریشنز کے حوالے بھی تھے۔

سازشی نظریہ ختم نہیں ہوں گے

ٹرمپ نے کہا تھا کہ دستاویزات کے 80,000 صفحات جاری کیے جائیں گے، لیکن ان میں سے تقریباً 64,000 ہی افشا کیے گئے، یعنی صدر کے دعوے سے 16,000 فائلیں کم ہیں۔

اس پر نظریہ سازوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ اصل معلومات تو ان بقیہ 16 ہزار صفحوں میں ہیں جنہیں چھپایا گیا ہے۔

کینیڈی کے قتل کے فوراً بعد ایک کمیشن بنایا گیا تھا، جس کے تحقیقات سے کسی سازش کا سراغ نہیں ملا۔ اس معاملے پر بہت سی کتابیں لکھی گئیں، فلمیں اور ڈاکومینٹریاں بنیں، پھر جو بائیڈن نے بھی کچھ دستاویزات جاری کیں، مگر قیاس آرائیوں کا بازار آج تک ٹھنڈا نہیں ہو سکا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ