جیسے ہی شاٹ گن کی گولیاں چلیں، انگلینڈ کے علاقے لٹن کے کونسل فلیٹس کی عمارت میں فرش لرزنے لگا، جہاں جولیانا فالکن اپنے نوجوان بچوں کے ساتھ رہتی تھیں۔
گذشتہ سال 13 ستمبر کی صبح پانچ بجے کے قریب نیچے رہنے والی پڑوسن نے شور سن کر اوپر آ کر دروازہ کھٹکھٹایا۔
مریم عباس کو اندر سے کراہوں اور مار پیٹ کی آوازیں سنائی دیں۔ جب انہوں نے دوبارہ دستک دی تو اچانک گولی چلنے کی آواز آئی، جس سے خوفزدہ ہو کر وہ بھاگ گئیں اور پولیس کو اطلاع دی۔
انہیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ 999 پر کی گئی ان کی فون کال، جس کے نتیجے میں جولیانا فالکن اور ان کے دو کم عمر بچوں کی لاشیں ملیں، ایک نوجوان مسلح حملہ آور کے منصوبے کو ناکام بنا دے گی، جو تاریخ کے بدترین قاتلوں میں شامل ہونے کا ارادہ رکھتا تھا۔
18 سالہ نکولس پراسپر نے منصوبہ بنایا تھا کہ وہ اپنے خاندان کو نیند میں ہی گولی مار کر قتل کر دیں گے اور پھر آٹھویں منزل پر واقع اپنے فلیٹ میں گھات لگا کر بیٹھ جائیں گے تاکہ بعد میں قریبی پرائمری سکول میں اسمبلی کے دوران چار اور پانچ سالہ 30 بچوں پر فائرنگ کر سکیں۔
خاندان کے ساتھ شدید جھگڑے نے پڑوسیوں کو الرٹ کر دیا اور جلد ہی پولیس پورے علاقے میں پھیل گئی۔
48 سالہ جولیانا فالکن کو سر میں گولی مار کر قتل کیا گیا، جبکہ ان کی 13 سالہ بیٹی گزیل پراسپر اور 16 سالہ بیٹا کائل پراسپر بھی مارے گئے۔ کائل کے جسم پر 100 سے زائد چاقو کے وار کیے گئے تھے۔
پراسپر بالآخر ہار مان گیا، ایک پولیس کار کو روک کر اس نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا اور گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس کو ایک 12-بور جاپانی نیکو شاٹ گن جھاڑیوں میں چھپی ہوئی ملی، جو اس نے جعلی لائسنس کے ذریعے خریدی تھی۔ اس کے ساتھ 30 سے زائد کارتوس بھی برآمد کیے گئے، جو اس نے اپنے خوفناک حملے کے لیے اکٹھے کیے تھے۔
اگر وہ اپنے منصوبے میں کامیاب ہو جاتا، تو یہ 1996 میں سکاٹ لینڈ کے علاقے ڈنبلین میں ہونے والے قتل عام کے بعد برطانیہ کا پہلا بڑا سکول شوٹنگ کا واقعہ ہوتا، جس میں تھامس ہیملٹن نے 16 بچوں اور ایک استاد کو قتل کرنے کے بعد خودکشی کر لی تھی۔
مقامی لوگوں کے لیے یہ حیران کن تھا کہ ایک خاموش اور الگ تھلگ رہنے والا نوجوان، جو زیادہ تر وقت اپنے کمرے میں گزارتا تھا، درحقیقت ایک بھیانک جرم کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔
ایک پڑوسی نے سکائی نیوز کو بتایا: ’یہ پورے علاقے کے لیے ایک زلزلے کی طرح تھا۔ ہر کوئی یہ سوال کر رہا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کوئی بیٹا اپنے ہی خاندان کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہے؟‘
لیکن نوجوان کی آن لائن سرگرمیوں کے تجزیے سے ویڈیو گیمز کے جنون میں مبتلا اس نوجوان کی ایک اور شخصیت سامنے آئی، جو ’دی واکنگ ڈیڈ‘ گیم کے ایک آٹھ سالہ خیالی کردار ’کلیمینٹائن‘ سے غیر معمولی حد تک متاثر نظر آتا تھا۔
حملے کے دن صبح چھ بج کر 22 منٹ پر، انہوں نے اپنی اب حذف شدہ سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ ان کی بہن گزیل نے زومبی اپوکلیپس گیم کی پہلی قسط میں ’غلط فیصلے‘ کیے اور اس کی سزا یہ ہوگی کہ ان کا چہرہ ضرورت سے زیادہ بگاڑ دیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا: ’میں منتخب شدہ ہوں، کلیمینٹائن نے مجھے چُنا ہے۔ جیسے مسیحیوں کو عیسیٰ مسیح کی رہنمائی حاصل ہوتی ہے، مجھے کلیمینٹائن کی رہنمائی حاصل ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان پر ایک ایسی ویب سائٹ پر پابندی عائد کردی گئی تھی، جہاں لوگ اموات کی ویڈیوز دیکھتے تھے۔ یہ ویب سائٹ ’موت کی حقیقت کو سمجھنے اور اس پر غور کرنے کے لیے ایک کمیونٹی‘ قرار دی جاتی تھی۔ تاہم، نوجوان نے وہاں بچوں پر تشدد، جنسی جرائم اور لاشوں کے ساتھ گھناؤنے افعال کے بارے میں خوفناک تبصرے کیے تھے، جس کے بعد انہیں بلاک کر دیا گیا۔
تحقیقات سے معلوم ہوا کہ پراسپر نے دیگر سکول حملہ آوروں اور ان کے منشور کا مطالعہ کیا تھا اور وہ ’انسانیت کے تاریک ترین پہلوؤں‘ میں خاص دلچسپی رکھتے تھے۔
بدنامی کی خواہش میں، انہوں نے اپنے گھر کے قریب سکولوں کی تحقیق کی اور ایک مخصوص سیاہ اور پیلے رنگ کا لباس منتخب کیا تاکہ لوگ انہیں ہمیشہ یاد رکھیں۔
گذشتہ ماہ پراسپر نے اپنی ماں اور دو کم عمر بہن بھائیوں کے قتل کا اعتراف کیا۔ اس کے علاوہ اس نے بغیر لائسنس کے شاٹ گن خریدنے اور رکھنے اور چاقو رکھنے کا جرم بھی تسلیم کر لیا۔
بدھ کو لٹن کراؤن کورٹ میں 19 سالہ پراسپر کو عمر قید کی سزا سنائی گئی، جس کی کم از کم مدت 49 سال مقرر کی گئی۔
جج نے ان کے منصوبے کو ’حساب کتاب کے ساتھ، خودغرضی پر مبنی اور سمجھداری سے بنایا گیا‘ قرار دیا۔
بیڈفورڈ جیل میں قاتل، جو آٹزم اور سائیکوپیتھک رویوں کا شکار ہے، نے کوئی ندامت ظاہر نہیں کی۔
ایک موقعے پر انہوں نے ایک میڈیکل افسر کے سامنے سرگوشی میں کہا: ’کاش میں مزید لوگوں کو قتل کر پاتا!‘
انہوں نے مزید کہا کہ وہ 2012 کے سینڈی ہُک قتل عام میں جان سے جانے والوں کی تعداد سے بھی زیادہ افراد کو قتل کرنا چاہتے تھے، جس میں کنیکٹیکٹ، امریکہ میں 28 افراد مارے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اپنی جان لے کر وہ ’دی واکنگ ڈیڈ‘ کے کلیمینٹائن کے ساتھ شامل ہونا چاہتے تھے۔
یہ واقعہ برطانیہ میں اکیلے حملہ آور کے مسئلے پر نئی قانون سازی کے مطالبے کو بڑھا رہا ہے، خاص طور پر گذشتہ سال ساؤتھ پورٹ میں ٹیلر سوئفٹ-تھیم پر مبنی ڈانس کلاس میں لڑکیوں پر چاقو سے کیے گئے اجتماعی حملے جیسے واقعات کے بعد۔
وزیر اعظم نے کہا کہ برطانیہ کو ’انتہائی تشدد‘ کے ایک نئے خطرے کا سامنا ہے، جو ’تنہا، ناپسندیدہ اور کمروں میں بند نوجوانوں‘ کی جانب سے آ رہا ہے۔
ہوم سیکرٹری یویٹ کوپر نے کہا کہ پراسپر کے جرائم ’انتہائی خوفناک ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ نوجوانوں میں تشدد کی جنونیت ایک بڑا مسئلہ بن رہی ہے۔‘
تاہم برطانیہ کے دہشت گردی کے نگران ادارے نے گذشتہ ہفتے اپنی ایک رپورٹ میں نتیجہ اخذ کیا کہ ایسے حملوں کو دہشت گردی کے زمرے میں شامل نہ کرنا درست ہے، لیکن اس نے ایسے افراد کے خلاف نئے قوانین بنانے کی سفارش کی جو بڑے پیمانے پر قتل عام کی منصوبہ بندی کرتے ہیں، لیکن جن کے مقاصد دہشت گردی کو فروغ دینا نہیں ہوتے۔
جوناتھن ہال کے سی، جو حکومت کے آزادانہ دہشت گردی کے قوانین کے تجزیہ کار ہیں، نے کہا کہ بعض معاملات میں یہ تفتیش کاروں کے لیے واضح ہوگا کہ حملہ خالصتاً ذاتی وجوہات کی بنا پر کیا گیا تھا، لیکن انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’ایسے اکیلے افراد کے لیے ایک حقیقی، نہ کہ محض نظریاتی قانونی خلا موجود ہے، جو بڑے پیمانے پر قتل کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔‘
انہوں نے خبردار کیا کہ یہ ’متوقع‘ ہے کہ دیگر اقسام کے پرتشدد حملے ایک نئے رجحان کو جنم دے سکتے ہیں، ’خاص طور پر تنہا، دھتکارے گئے، کمزور دماغی صحت کے حامل نوجوانوں میں، جن کے لیے پرانی رنجشیں اور شکایات تشدد کی بنیاد بن جاتی ہیں۔‘
پراسپر کے مقدمے کے حوالے سے، انہوں نے مزید کہا: ’اصل نکتہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے قوانین برطانیہ کے لیے اس قسم کے حملہ آوروں سے بچاؤ کا بنیادی ذریعہ نہیں ہیں، اصل اہمیت اسلحے کے کنٹرول کی ہے۔‘
قتل کے بعد جولیانا فالکن (48) کو خراج عقیدت پیش کیا گیا، جن کے بارے میں کہا گیا کہ وہ ’اپنے بچوں کے لیے جیتی تھیں،‘ انہیں ’ایک مثبت شخصیت قرار دیا گیا، جن کی کمی محسوس کی جائے گی۔‘
لیا مینور ہائی سکول کے اساتذہ نے نویں جماعت کی طالبہ گزیل کی موت کے بعد انہیں ’ایک خوبصورت روح اور مثالی طالبہ‘ کہا، جنہیں شدت سے یاد کیا جائے گا۔
16 سالہ کائل فٹ بال اور باکسنگ کے بے حد شوقین تھے۔ ان کے ایک دوست نے انہیں ’اچھا، پُراعتماد اور خوش آمدید کہنے والا نوجوان‘ قرار دیا۔
پراسپر کے والد رے پراسپر، جو ارجنٹینا میں پیدا ہونے والی جولیانا فالکن سے طلاق لے چکے تھے، نے ایک مختصر بیان میں کہا کہ جب انہوں نے یہ خبر سنی، تو ’ان کی روح کا ایک حصہ بھی مر گیا۔‘
پراسپر کے سب سے بڑے بھائی، جو اپنے والد کے ساتھ رہائش پذیر تھے، اس حملے سے بچ گئے۔
عدالت کی ایک ابتدائی سماعت کے دوران رے پراسپر نے اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’بیٹا، میں اب بھی آپ سے محبت کرتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ آپ کی غلطی نہیں ہے۔‘
جب پراسپر کے سکول حملے کے منصوبے کی تفصیلات سامنے آئیں، تو سینٹ جوزف کیتھولک پرائمری سکول کی پرنسپل مورین مرفی نے کہا کہ پراسپر کے تمام بہن بھائی اسی سکول میں زیر تعلیم رہے تھے اور وہ ’ہمارے سکول کی ایک عزیز فیملی تھے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہمیں یہ جان کر سخت دھچکا لگا کہ سینٹ جوزف اس واقعے میں ممکنہ ہدف تھا۔ تاہم، ہم اپنے والدین اور سرپرستوں کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ سکول کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘
© The Independent