قیمت ادائیگی کے لیے مردان کی جامعات زمین فروخت کرنے پر مجبور

خیبر پختونخوا حکومت نے ضلع مردان میں تعلیمی اداروں کی ملکیتی ’غیر ضروری‘ زمینیں فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کی اساتذہ تنظمیں مخالفت کر رہی ہیں۔

اس تصویر میں مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کا ایڈمنسٹریشن بلاک کا مرکزی دروازہ دیکھا جا سکتا ہے (عبدالولی خان یونیورسٹی ویب سائٹ)

خیبر پختونخوا حکومت نے ضلع مردان میں بعض یونیورسٹیوں اور کچھ دوسرے تعلیمی اداروں کی ملکیتی ’غیر ضروری‘ زمینیں فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جب کہ جامعات کی اساتذہ تنظیموں نے اس عمل کی مخالفت کی ہے۔

جن جامعات کی غیر ضروری زمینیں فروخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ان میں مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی، انجینیئرنگ یونیورسٹی، باچا خان میڈیکل کالج اور ایگریکلچرل یونیورسٹی کا کیمپس شامل ہیں۔

اس حوالے سے 10 جولائی کو وزیر اعلٰی کے معاون خصوصی برائے اینٹی کرپشن بریگیڈیئر (ر) مصدق عباسی کے زیر صدارت ایک اجلاس پشاور سول سیکریٹریٹ میں منعقد ہوا، جس کے مینٹس کے مطابق ان جامعات کی زمینیں بیچنے کے لیے ایک کمیٹی بنائی جائے گی، نیلامی کے عمل کی نگرانی کرے گی۔

اجلاس کے منٹس (جو انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہیں) کے مطابق زمینیں بیچنے کے دوران اس زمین کو نہیں بیچا جائے گا، جس کی یونیورسٹی کو ضرورت ہے، جب کہ زمین بیچنے کے بعد رقم صوبائی خزانے میں عدالتی احکامات کی روشنی میں جمع کروائی جائے گی۔

جامعات کے اساتذہ کا مؤقف

اس حکومتی فیصلے کی اساتذہ تنظیموں نے مخالفت کی ہے۔

عبدالولی خان یونیورسٹی مردان اکیڈیمک سٹاف ایسو سی ایشن کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر بادشاہ اسلام نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ زمین بیچنے کا فیصلہ یونیورسٹی کے اور نہ ہی عوامی مفاد میں ہے۔

انہوں نے بتایا، ’جامعہ کے لیے جو زمین حکومت نے مہیا کی ہے، وہ مستقبل کی ضرورت کو سامنے رکھ کر لی گئی ہے اور اس کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی ہے۔‘

ڈاکٹر اسلام کے مطابق زمین بیچنے کی فیصلے سے اساتذہ اور طلبہ میں شدید تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ عبدالولی خان یونیورسٹی مردان تحقیق اور تعلیم کے شعبے میں ٹاپ رینک میں شامل ہے۔ 

اصل معاملہ کیا ہے؟

جامعات کی زمین بیچنے کا فیصلہ عدالتی احکامات کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ عبدالولی خان یونیورسٹی کے ایک پروفیسر، جو اکیڈیمک سٹاف ایسوسی ایشن کے عہدیدار بھی ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ زمینیں صوبے میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت کے دوران خریدی گئی تھیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم عہدیدار کے مطابق زمینوں کے مالکان کو پیسے نہیں دیے گئے تھے، جس کی وجہ سے مالکان عدالت گئے اور عدالت نے حکومت کو مالکان کے واجب الادا رقم دینے کا حکم جاری کیا ہے۔

اسی حوالے سے گذشتہ روز مردان میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے بتایا کہ ’ماضی کی حکومتوں نے بہت سے قرضے ہمارے سر پر چھوڑے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ پنجاب کی اتنی بڑی آبادی کے لیے 34 یونیورسٹیاں ہیں، جب کہ خیبر پختونخوا کی کم آبادی کے لیے بھی 34 یونیورسٹیاں ہیں، جو غیر ضروری طور پر بنائی گئیں۔

علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ’جامعات کی زمینوں کے مالکان عدالت گئے تو وہاں حساب کتاب لگا کر ان کے اربوں روپے واجب الادا ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی یونیورسٹی کی 1200 کنال زمین ہے اور اس کی ضرورت 400 کنال سے پوری ہوتی ہے تو اتنی زیادہ زمین کی کیا ضرورت ہےاور اسی وجہ سے ہم اسے بیچ کر مالکان کو ان کے رقم ادا کرنا ہے۔

عدالتی فیصلہ

ستمبر 2022 میں اس معاملے پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ جاری کیا تھا، جس میں لکھا گیا ہے کہ ان جامعات کے لیے 2008 میں زمین 2800 روپے فی مرلہ کے حساب سے خریدی گئی تھی لیکن 2019 میں مالکان نے عدالت میں درخواست جمع کرائی کہ ان کو پیسے ابھی تک نہیں ادا ہوئے، جب کہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق قیمت بڑھانے کی بھی سفارش کی۔

عدالتی فیصلے کے مطابق: ’حکومت مالکان کو ایک لاکھ 25 ہزار فی مرلہ کے حساب سے ادائیگی کریں گے جب کہ اس پر چھ فیصد سالانہ شرح سود بھی ہو گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس