امریکی فوجی راز لیک کرنے کا الزام: وکی لیکس کے بانی جولین اسانج رہا

امریکی عدالتی دستاویزات کے مطابق جولین اسانج نے خفیہ امریکی فوجی دستاویزات حاصل اور لیک کرنے کی سازش کے واحد جرم کو قبول کرنے پر اتفاق کیا ہے اور انہیں بدھ کو سیپن جزیرے پر ہونے والی سماعت میں 62 ماہ کی سزا سنائی جائے گی، جو وہ پہلے ہی پوری کرچکے ہیں۔

وکی لیکس کے مطابق اس کے بانی جولین اسانج نے پانچ سال برطانوی حراست میں گزارنے کے بعد پیر کو رہائی کے بعد برطانیہ چھوڑ دیا۔ رہائی کے بعد ان اہلیہ سٹیلا اسانج نے ان کے لیے مہم چلانے والوں کا شکریہ ادا کیا۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سٹیلا اسانج نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا: ’جولین آزاد ہو گئے ہیں!‘ انہوں نے تصدیق کی کہ وہ جنوب مشرقی لندن کی بیلمارش ہائی سکیورٹی جیل سے رہا ہو گئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کی رہائی کے لیے عالمی دباؤ کی حمایت کرنے والے ہر شخص کا ’الفاظ میں شکریہ ادا نہیں کیا جا سکتا۔‘

آسٹریلوی پبلشر جولین اسانج پر افغانستان اور عراق کی جنگوں سے متعلق امریکی فوجی راز افشا کرنے کا الزام تھا اور ان کی حوالگی کے خلاف اپیل جیتنے کے بعد اگلے ماہ انہیں لندن کی عدالت میں پیش کیا جانا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خبر رساں ادارے روئٹرز نے رپورٹ کیا ہے کہ شمالی ماریانا جزائر کے لیے امریکی ضلعی عدالت میں دائر کی گئی دستاویزات کے مطابق 52 سالہ جولین اسانج نے خفیہ امریکی قومی دفاعی دستاویزات کو حاصل اور لیک کرنے کی سازش کے واحد جرم کو قبول کرنے پر اتفاق کیا ہے اور انہیں بدھ کو مقامی وقت کے مطابق صبح نو بجے سیپن جزیرے پر ہونے والی سماعت میں 62 ماہ کی سزا سنائی جائے گی، جو وہ پہلے ہی پوری کرچکے ہیں۔

اس حوالے سے وکی لیکس نے ایکس پر اپنے بیان میں کہا: ’جولین اسانج رہا ہو گئے ہیں۔ انہوں نے 1901 دن گزارنے کے بعد 24 جون کی صبح بیلمارش کی ہائی سکیورٹی جیل سے رہائی پائی۔

مزید کہا گیا: ’انہیں لندن میں ہائی کورٹ نے ضمانت دے دی تھی اور دوپہر کے وقت سٹینسٹیڈ ہوائی اڈے پر چھوڑ دیا گیا تھا، جہاں وہ ایک طیارے میں سوار ہوئے اور برطانیہ سے روانہ ہو گئے۔‘

بیان کے مطابق نچلی سطح کے حامیوں سے لے کر سیاسی رہنماؤں اور اقوام متحدہ تک مسلسل مہم نے ’امریکی محکمہ انصاف کے ساتھ طویل عرصے تک مذاکرات کی گنجائش پیدا کی‘ جس کے نتیجے میں ایک معاہدہ ہوا۔

تاہم اس معاہدے کو ’ابھی تک باضابطہ طور پر حتمی شکل نہیں دی گئی۔‘

 

بیان میں کہا گیا کہ ’وکی لیکس نے حکومتی بدعنوانی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی خبریں شائع کیں اور طاقتور افراد کو ان کے اقدامات کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

’ایڈیٹر ان چیف کی حیثیت سے جولین نے ان اصولوں اور لوگوں کے جاننے کے حق کے لیے بہت بڑی قیمت ادا کی۔ جیسے ہی وہ آسٹریلیا واپس آئے تو ہم ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو ہمارے ساتھ کھڑے رہے، ہمارے لیے لڑے اور ان کی آزادی کی لڑائی میں پوری طرح پرعزم رہے۔ جولین کی آزادی ہماری آزادی ہے۔‘

جولین اسانج کو ابتدائی طور پر ایک سویڈش کیس کے سلسلے میں ضمانت سے فرار ہونے پر حراست میں لیا گیا تھا جبکہ امریکی حوالگی کی درخواست عدالت کے ذریعے منظور کی گئی تھی۔

وکی لیکس کا معاملہ کیا ہے؟

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق وکی لیکس نے 2010 میں افغانستان اور عراق میں واشنگٹن کی جنگوں کے بارے میں لاکھوں خفیہ امریکی فوجی دستاویزات اور بہت سی سفارتی کیبلز شائع کی تھیں، جو امریکی فوجی تاریخ میں اپنی نوعیت کی سکیورٹی کی سب سے بڑی ناکامی تھی۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں جولین اسانج پر وکی لیکس کی جانب سے خفیہ امریکی دستاویزات جاری کرنے کے الزام میں فرد جرم عائد کی گئی، جنہیں سابق امریکی فوجی انٹیلی جنس تجزیہ کار چیلسی میننگ نے لیک کیا تھا، ان پر بھی جاسوسی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا گیا تھا۔

سات لاکھ سے زائد دستاویزات میں سفارتی کیبلز اور میدان جنگ کے واقعات شامل ہیں جن میں 2007 میں ایک امریکی اپاچی ہیلی کاپٹر کی عراق میں مشتبہ باغیوں پر فائرنگ کی ویڈیو بھی ہے۔ اس فائرنگ میں روئٹرز کے دو ارکان سمیت ایک درجن افراد مارے گئے تھے۔ یہ ویڈیو 2010 میں جاری کی گئی۔

جولین اسانج کے خلاف الزامات سے ان کے بہت سے عالمی حامی برہم ہوئے جو طویل عرصے سے یہ دلیل دے رہے ہیں کہ وکی لیکس کے پبلشر کی حیثیت سے اسانج کو ان الزامات کا سامنا نہیں کرنا چاہیے جو عام طور پر وفاقی حکومت کے ان ملازمین پر لگائے جاتے ہیں، جو معلومات چوری یا لیک کرتے ہیں۔

آزادی صحافت کے بہت سے حامیوں کا کہنا ہے کہ جولین اسانج پر مجرمانہ الزام لگانا آزادی اظہار رائے کے لیے خطرہ ہے۔

آسٹریلوی حکومت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’وزیر اعظم (انتھونی) البانیز نے واضح کہا ہے کہ جولین اسانج کا معاملہ طویل عرصے سے چل رہا ہے اور ان کی قید سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔‘

جولین اسانج کو پہلی بار 2010 میں یورپی وارنٹ گرفتاری پر برطانیہ میں گرفتار کیا گیا تھا جب سویڈش حکام نے کہا تھا کہ وہ جنسی جرائم کے الزامات پر ان سے پوچھ گچھ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ الزامات بعد میں واپس لے لیے گئے تھے۔ وہ سویڈن حوالگی سے بچنے کے لیے ایکواڈور میں برطانوی سفارت خانے چلے گئے تھے، جہاں وہ سات سال رہے۔

انہیں 2019 میں سفارت خانے سے گھسیٹ کر نکالا گیا تھا اور ضمانت نہ ملنے پر جیل بھیج دیا گیا۔

 اس کے بعد سے وہ لندن کی بیلمارش جیل میں تھے اور تقریباً پانچ سال سے امریکہ حوالگی کے خلاف کیس لڑ رہے تھے۔

یہ پانچ سال کی قید ایئر فورس کی ایک تجربہ کار اور سابق انٹیلی جنس کنٹریکٹر رئیلٹی ونر کو دی گئی سزا سے ملتی جلتی ہے، جنہیں خفیہ مواد ایک نیوز آؤٹ لیٹ کو ای میل کرنے پر 63 ماہ کی سزا سنائی گئی تھی۔

بیلمارش جیل میں رہتے ہوئے جولین اسانج نے اپنی ساتھی سٹیلا سے شادی کی جس سے ان کے دو بچے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا