امریکہ کی تین سال قبل عجلت میں انخلا کے دوران افغانستان چھوڑی گئی سینکڑوں ہمویزز گاڑیوں کو کباڑ خانوں میں زنگ لگ رہا ہے۔
یہ گاڑیاں افغانستان میں امریکی کارروائیوں کی علامت بن چکی تھیں۔ افغانستان کے متعدد صوبوں میں نیٹو اور امریکی اڈوں کی لی گئی نئی سیٹلائٹ تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ امریکی ساختہ گاڑیاں تباہ اور کھوکھلی ہو چکی ہیں اور ان کے پرزے کھلے گیراجوں اور کمپاؤنڈز کے ارد گرد بکھرے ہوئے ہیں۔
امریکی افواج نے 20 سال کی جنگ کے بعد افغانستان سے انخلا کے آخری ہفتوں میں طیاروں سے لے کر کمپیوٹر سسٹم تک اپنی زیادہ تر مشینری کو تباہ کر دیا یا تباہ کرنے کی کوشش کی۔
لیکن امریکی دفاعی حکام کے مطابق اگست 2021 میں جب امریکی تربیت یافتہ افغان فوج تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی، جنہوں نے لڑے بغیر طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تو بہت کچھ طالبان کے ہاتھ میں چلا گیا۔
پینٹاگون کا کہنا ہے کہ اس وقت امریکی افواج اپنے پیچھے 7.2 ارب ڈالر سے زائد مالیت کا فوجی سازوسامان چھوڑ گئی تھیں۔
اس بچ جانے والے فوجی سازوسامان کی جھلک کبھی کبھار طالبان کی تقریبات میں دیکھائی دیتی ہے، جیسا کہ اس سال اگست کے اوائل میں بگرام ہوائی اڈے پر طالبان کی اپنے اقتدار کے تین سال مکمل ہونے کے موقعے پر منعقد ایک عظیم الشان پریڈ میں۔
اقتدار حاصل کرنے کے فوری بعد کے مناظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ طالبان عسکریت پسند امریکہ کے پہنچائے گئے گولہ بارود، بندوقوں، ہیلی کاپٹراور دیگر جدید فوجی سازوسامان پر قبضہ کر رہے ہیں۔
دی انڈیپنڈنٹ نے کابل، قندھار، ہرات، خوست اور غزنی کی تصاویر کا تجزیہ کیا ہے، جن میں ہمویز گاڑیاں، ساتھ ہی دیگر فوجی اور ہیوی وہیکل جیسے رینجرز اور فوجی ٹرکس بھی دکھائی دیتے ہیں، جو امریکی فوج نے سقوط کابل سے پہلے اگست 2021 میں افغان نیشنل ڈیفنس سکیورٹی فورسز (ANDSF) اور پولیس حکام کو دی تھیں۔
ان میں سے زیادہ تر ہمویز افغانستان میں طاقت کے دو مراکز کابل اور قندھار کی تصاویر میں نظر آتی ہیں، جن میں سے کئی کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے عقب میں ہیں۔
قندھار میں زیادہ تر ہمویز گاڑیوں کو سپن بولدک روڈ کے قریب امریکی فوج کے زیر انتظام ہوائی اڈے پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
2019 اور 2020 کی دستیاب تصاویر کے برعکس، جب امریکہ اور افغان افواج نے مشترکہ طور پر اڈوں کا انتظام سنبھالا تھا، اب 2024 میں طالبان حکومت میں ان گاڑیوں کی خراب حالت کو ظاہر کرتی ہیں۔
اوپن سورس انٹیلی جنس ریسرچر اور تجزیہ کار قیس علم دار نے دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ افغانستان سے آنے والے کم از کم 20 جیولوکیٹڈ کوآرڈینیٹس میں ہمویز کے ساتھ ساتھ دیگر بکتر بند گاڑیاں، ٹرک اور ٹینک شامل ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے کی [تصاویر کا] موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اب اس مہنگی نیٹو مشینری کی دیکھ بھال کرنے کے قابل نہیں، اور اس کی کئی وجوہات ہیں – جن میں دیکھ بھال اور انہیں چلانے کے لیے مہنگا تیل بھی شامل ہے۔‘
علم دار کہتے ہیں کہ حکومت دوبارہ ملنے کے بعد ابتدائی چند مہینوں میں طالبان ان ہمویز گاڑیوں کو پک اپ ٹرکوں کے ساتھ افغان صوبوں کے کچھ حصوں میں گشت کرنے کے لیے استعمال کر رہے تھے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ گذشتہ برسوں کے دوران انہوں نے ان میں سے درجنوں ناکارہ کر دی ہیں۔
اشرف غنی انتظامیہ میں کرائم انویسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ (سی آئی ڈی) کے سابق جنرل ڈائریکٹر بسم اللہ تابان کا کہنا ہے کہ ہمویز کو چلانے کے لیے تیل زیادہ مہنگا ہے اور ان کی مرمت کے لیے سپیئر پارٹس کا امریکی اور یورپی مارکیٹوں سے باہر جانا ناممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ صرف تیل ہی نہیں جو ایک عام گاڑی کے مقابلے میں پانچ سے چھ گنا زیادہ ہے، بلکہ آپ کو افغان بازار میں ہمویز کا ایک چھوٹا سا پرزہ بھی نہیں مل سکتا۔
’آپ کو عرب امارات سے آرڈر کرنا ہوگا۔ ہمویز کی دیکھ بھال مہنگی ہو رہی ہے اور سچ پوچھیں تو طالبان کے لیے بجٹ سے بڑھ رہی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’مزے کی بات یہ ہے کہ طالبان کے مقامی رہنماؤں نے گشت کے لیے موٹر سائیکلوں کا استعمال شروع کر دیا ہے، خاص طور پر بغلان اور بدخشاں جیسے علاقوں میں۔‘
تابان، جو کابل میں ان جگہوں کے قریب کام کرتے تھے جہاں ہمویز گاڑیوں کو ٹھکانے لگایا گیا ہے، کہتے ہیں کہ نیٹو افواج کے لیے کام کرنے والے مکینکس اب امریکہ یا دنیا کے دیگر حصوں میں ہیں، اور افغانستان واپس جانے سے ڈرتے ہیں۔
تابان کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ اس طرح کے خراب حالات میں سپیئر پارٹس خریدنے یا ہمویز کو ٹھیک کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو آپ یہ کام 100 یا 200 ہمویز کے لیے نہیں بلکہ 10 سے 12 ہمویز کے لیے کر سکتے ہیں۔‘
نتیجتا، ہمویز اب چوری شدہ امریکی طاقت کا محض ایک شو پیس بن چکی ہیں، جو ملک میں سرحدی چوکیوں پر کھڑی ہیں۔
گذشتہ ہفتے خودکش حملے میں مارے گئے طالبان کے سینیئر وزیر خلیل حقانی کے جنازے کے جلوس کی حفاظت کے لیے ہمویز کا ایک دستہ استعمال کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کی آخری رسومات میں موجود ذرائع نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ صوبہ پکتیا میں تدفین کے لیے تقریباً 30 سے 40 ہمویز کا قافلہ قطار میں کھڑا تھا۔
افغانستان سے متعلق صحافی اور تجزیہ کار لین اوڈونیل کہتی ہیں کہ سپیئر پارٹس کی عدم موجودگی میں طالبان ان ہمویز گاڑیوں کو ختم کر رہے ہیں۔
سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر میں کئی ہمویز گاڑیوں کو دکھایا گیا ہے جو بظاہر ٹوٹ چکی ہیں یا مکمل طور پر کھوکھلی ہو چکی ہیں۔
اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ طالبان کس طرح بلیک ہاک ہیلی کاپٹروں اور دیگر امریکی فوجی طیاروں کو ٹھیک کرنے میں کامیاب رہے جو انہوں نے افغانستان میں اڑائے تھے، وہ کہتی ہیں کہ امریکہ نے افغان فوج کو اربوں ڈالر کے مواد کی مرمت اور دیکھ بھال کی تربیت دی جو جمہوریہ کو اس کی فوجی صلاحیت بڑھانے کے لیے منتقل کیا گیا تھا۔
سپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن (ایس آئی جی اے آر) کی رپورٹوں کے مطابق امریکہ نے 2001 سے اب تک افغان سکیورٹی فورسز کی بہتری اور ان کو برقرار رکھنے کے لیے تقریباً 83 ارب ڈالر خرچ کیے۔
ایس آئی جی اے آر امریکی ٹیکس دہندگان کے اس پیسے کی نگرانی کرتا ہے جو تنازعے پر خرچ کیا گیا۔
2019 سے 2021 تک افغانستان کے خفیہ ادارے کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دینے والے احمد ضیا سراج کا کہنا ہے کہ اس بات پر تشویش ہے کہ طالبان پاکستان اور ایران جیسے ہمسایہ ممالک کے ذریعے بلیک مارکیٹ میں سابق امریکی فوجی سازوسامان کے کچھ پرزے فروخت کرکے فنڈز جمع کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ 'جیسے ہی طالبان نے وزارت دفاع کے ڈپوز پر قبضہ کیا، انہیں لوٹ لیا گیا، انہوں نے بہت سی چیزیں، ہتھیار، گولہ بارود اور ان گاڑیوں کے یہ سپیئر پارٹس چوری کیے اور یہ سب پاکستان کی بلیک مارکیٹوں میں فروخت کیے گئے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’جلد ہی وہ نیٹو کی ان گاڑیوں کو سکریپ کی طرح فروخت کریں گے اور یقیناً اس کی مارکیٹ پاکستان ہوگی اور کوئی نہیں جانتا کہ پاکستان بعد میں اسے کس طرح استعمال کرے گا۔‘
© The Independent