بنگلہ دیش سے 50 سال پہلے ایک دوست کے ساتھ پاکستان آنے والے 70 سالہ عبدالجبار گوگل کے ذریعے ڈھاکہ میں اپنے اہل خانہ سے رابطہ ہونے کے بعد واپسی کے لیے بے چین ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ سفر کے لیے ڈھاکہ سے ضروری دستاویزات منگوانے کے بعد وہ اپنے پیاروں سے مل کر نصف صدی سے ’جدائی کی پیاس بجھانا چاہتے ہیں۔‘
لاہور میں داتا دربار کے عقب میں بلال گنج مارکیٹ میں کام کرنے والے عبدالجبار کا کہنا ہے وہ محنت مزدوری کر کے دو وقت کی روٹی کما رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس کوئی شناختی کارڈ یا ایسی دستاویز نہیں۔ ’یہی وجہ ہے نہ شادی ہوئی اور نہ کوئی گھر کرائے پر دیتا ہے۔ اسی لیے بلال گنج مارکیٹ میں ایک کمرے میں رہ کر اپنا کام کرتا ہوں اور یہیں سو جاتا ہوں۔‘
عبدالجبار کے مطابق ان کے والد ڈھاکہ میں تاجر تھے اور ایک پلازے میں ان کی دکان تھی۔
’میری عمر 17, 18 سال تھی جب ایک دن گھر تاخیر سے آنے پر والد کی ڈانٹ سے خوف زدہ ہو گیا۔ یہ 1973 کی بات ہے، میرے ایک دوست نے بتایا کہ وہ اپنے چچا سے ملنے کراچی جا رہے ہیں۔
’میں بھی ان کے ساتھ ڈھاکہ سے کراچی کے لیے روانہ ہو گیا۔ ہم امرتسر سے ہوتے ہوئے لاہور انڈیا کے بارڈر سے بھی گزر گئے کیونکہ 1971 میں بنگلہ دیش اور پاکستان علیحدہ ہوئے تھے تو بنگالیوں کے لیے پاکستان داخلے پر زیادہ سخت پابندی نہیں تھی۔‘
عبدالجبار کے بقول، ’ہم لاہور سے بذریعہ ٹرین کراچی گئے، وہاں دو سال تک رہے اور کام کرنا شروع کر دیا۔ جب گھر کی یاد آئی تو میں نے واپس لاہور آ کر دوبارہ سرحد سے انڈیا داخل ہونے کی کوشش کی لیکن بارڈر سکیورٹی فورس نے دھکے دے کر بھگا دیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’تقسیم کی یہ دیوار میرے لیے اتنی اونچی ہو گئی کہ جس نے مجھے میرے پیاروں سے 50 سال کے لیے جدا کر رکھا ہے۔ رہنے کی جگہ نہ ہونے پر میں داتا دربار آ گیا اور بلال گنج میں محنت مزدوری شروع کر دی۔‘
انہوں نے بتایا کہ وہ یہاں ایک تاجر اعجاز خان کے پاس کام کرتے ہیں جنہوں نے کچھ ماہ پہلے انٹرنیٹ کے ذریعے میرے والد کی دکان تلاش کر کے میرے بھائی کا نمبر لیا اور ان سے میرا ٹیلی فون پر رابطہ کرایا۔
’ایک طرف مجھے اپنوں کے مل جانے کی خوشی تھی تو دوسری طرف والد، والدہ اور بڑے بھائی کی موت کا سن کر شدید غم بھی تھا۔
’جس دن بات کی ساری رات سونے کی بجائے رو کر گزاری۔ اپنوں کی وٹس ایپ سے تصاویر منگوائیں۔ اب ان کو دیکھ کر اور فون پر بات کر کے یادیں بحال کرتا رہتا ہوں۔‘
عبدالجبار کا اہل خانہ سے رابطہ کرانے والے اعجاز خان نے بتایا کہ ’بابا عبدالجبار کو وہ دو دہائیوں سے جانتے ہیں۔ وہ اپنے پیاروں کا تذکرہ کر کے جب روتے تو انہوں نے گوگل سے ڈھاکہ میں ان کے والد کی دکان تلاش کر کے رابطہ نمبر لیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اب وہ فون پر آپس میں بات کرتے ہیں۔ بابا کے پاس فون نہیں ہے نہ وہ استعمال کر سکتے ہیں، اس لیے انہی کے فون سے ان کی فیملی کا رابطہ ہوتا ہے۔‘
اعجاز خان کے بقول، ’ہم نے بنگلہ دیشی ایمبیسی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ عبدالجبار کی فیملی سے ان کی کوئی گمشدگی کی رپورٹ، والدین کے شناختی کارڈ کی کاپی یا کوئی دستاویزی ثبوت منگوائیں تو ہم عبدالجبار کو ڈھاکہ بھجوا سکتے ہیں۔
’میری دو سال پہلے دبئی میں عبدالجبار کے بھتیجے محمد شریف سے ملاقات ہوئی تھی تو انہوں نے بھی یقین دہانی کرائی کہ وہ دستاویز بھیج کر اپنے چچا کو واپس بلائیں گے۔‘
اعجاز کے مطابق: ’اب ہم منتظر ہیں کہ ان کی فیملی دستاویز بھیجے کہ ہم انہیں روانہ کریں۔‘
’ان کی بہنیں جو بوڑھی ہو چکی ہیں وہ رابطہ کرتی رہتی ہیں اور واپسی کی یقین دہانی بھی کراتی ہیں۔‘
عبدالجبار نے بنگلہ دیشی اور پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں وطن واپس بھجوانے کا بندوبست کیا جائے۔
چند دن پہلے ایک بنگلہ دیشی شہری افتخار حسین پاکستان کے شہر چکوال 50سال بعد اپنے خاندان سے ملنے پہنچے تو جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے تھے۔