میڈ ان پاکستان کو ہلکا نہیں لینا

صرف پھل سبزی ہی کیا، ہمارے کارخانوں میں بننے والا کپڑا کیا کم بڑھیا ہے! ابھی عراق جانا ہوا، بغداد کی ایک ہول سیل مارکیٹ میں کسی ایک دکان پہ اچھی کاٹن دستیاب نہ تھی۔

20 جولائی 2023 کو لی گئی اس تصویر میں کارکن لاہور میں کوہ نور ٹیکسٹائل ملز میں مشینیں چلا رہے ہیں (فاروق نعیم / اے ایف پی)

پاکستان کی قومی ائیر لائن پی آئی اے کو جو یورپ کی فضاؤں میں پھر سے اینٹری ملی ہے تو دو طرح کے پاکستانیوں سے ملنا ہو رہا ہے۔

ایک گروہ کا کہنا ہے کہ ’چند گھنٹوں کی ڈائریکٹ پرواز ہے اور فٹافٹ پاکستان میں اپنوں کے درمیان ہوتے ہیں۔ اس کم وقت کا کوئی متبادل نہیں، کچھ اونچ نیچ بھی ہے تو بھگت لیں گے بس کچھ گھنٹوں کی تو بات ہے۔‘

 دوسرا گروہ ’پاکستانی ائیر لائنز کے معیار، پائلٹوں کی من مانی، ماضی کے حادثات، ائیر ہوسٹسوں کا سینیئر ہونا، طیارے کی نشستوں کا گندا ہونا، طیاروں میں جدید انٹرٹینمنٹ سہولیات کا فقدان اور طیارے کے ٹوائلٹ کا غلیظ ہونا‘ وہ وجوہات بتاتے ہیں جن کی وجہ سے وہ قومی ائیر لائن کے بجائے دیگر ائیر لائنز کو استعمال کرنے پہ مجبور ہیں۔

میرا تعلق پہلے گروہ سے ہے تاہم ناروے میں ابھی پی آئی اے کے آپریشن کا آغاز ہونا باقی ہے، اس لیے فلائٹ پہ تبصرہ بعد میں ہو گا، آج کا کالم پاکستان کی ان مصنوعات کو دادوتحسین دینے کے لیے ہے جن کا پوری دنیا میں کوئی بدل نہیں۔

جتنی قیمت اور جیسے معیار کا تازہ ہرا دھنیا، مرچ، کھیرا، ککڑی، گاجر ہم پاکستانی بغیر کسی شکر کے استعمال کر لیتے ہیں۔ ان کی قدر ان ممالک میں ہوتی ہے جہاں تازہ سبزی عنقا ہے۔ جہاں امپورٹ ہو کر آنے والی سبزی کی شیلف لائف دو چار دن سے زیادہ نہیں ہوتی۔

دنیا پاکستانی آموں کا انتظار سارا سال کرتی ہے۔ یورپ کے مقامی میٹھوں جیسے کیک، پڈنگ کی کیٹگری میں کتنی ہی ترکیبیں ایسی ہیں کہ جن میں خاص طور پہ لکھا ہوتا ہے کہ اسے صرف پاکستانی آم کے ساتھ بنائیں۔

پاکستان پہلے ہی آم دنیا بھر میں بھیج رہا ہے لیکن مارکیٹ ہمارے آموں کی پیداوار سے بہت بڑی ہے۔ صرف یہاں اوسلو کی دکانوں میں ہی اپریل مئی سے خریدار پاکستانی آموں کی آمد کا پوچھنے لگ جاتے ہیں۔

صرف پھل سبزی ہی کیا، ہمارے کارخانوں میں بننے والا کپڑا کیا کم بڑھیا ہے! ابھی عراق جانا ہوا، بغداد کی ایک ہول سیل مارکیٹ میں تقریباً صبح سے شام ہو گئی، کسی ایک دکان پہ اچھی کاٹن دستیاب نہ تھی۔ چلیں بغداد تو جنگ زدہ ہے یہاں یورپ میں بھی فیشن گارمنٹ میں سینتھیٹک فائبر ہی ملے گا جس کے کپڑے پہنو تو لگتا ہے جیسے پلاسٹک کی تھیلی پہن لی ہو۔

دنیا بھر میں یہی ہے کہ اگر اچھی قسم کی کاٹن کے کپڑے لینے ہیں تو قیمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور ان میں اکثریت پہ ٹیگ میڈ ان پاکستان کا ہوتا ہے۔ ہمارے لوگ ملائم لان، کھدر، ململ، جینز اور کاٹن نام کی اس لگژری کو مزے سے سستے داموں استعمال کر لیتے ہیں۔

راستہ میڈ ان پاکستان نامی فیشن برانڈ نے یونہی نہیں عالمی شہرت یافتہ سلیبرٹیز کو اپنا دیوانہ بنالیا، پاکستانی کپڑے اور چمڑے کی صنعت میں اتنی جان ہے کہ امریکہ اور یورپ کی ہائی اینڈ مارکیٹ کی نبض پکڑ لے۔

پاکستان کی وہ انڈسٹری جو دنیا کی سب سے بہترین فٹ بال اور لیدر جیکٹس  بناتی ہے کیا ممکن نہیں کہ دنیا کے نمبر ون سپورٹس شوز بنانے لگے؟ بالکل بنا سکتی ہے۔ یہاں ایسے بھی دوست ملے ہیں جو پاکستان جاتے ہیں تو لازمی کئی جوڑی پاکستان کے لوکل برانڈز کے جوتے ضرور لاتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے پاکستانی جوتے زیادہ پائیدار ہوتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فیشن انڈسٹری سے منسلک بیڈنگ اور ہوم ڈیکور انڈسٹری ہے۔ کبھی کبھی دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ یورپ میں بستر ، چادر، تکیے، رضائی اور دلائی کی مصنوعات میں سب سے مہنگی اور بہترین وہ ہوتی ہیں جو میڈ ان پاکستان ہوں۔ ایکسپورٹ کوالٹی ہونے کی وجہ سے ان مصنوعات کی سلائی اور نفاست اس سے کہیں بہتر ہوتی ہے جو پاکستان میں ملتی ہے۔

مصالحہ انڈسٹری میں ہم دیسیوں کی مجبوری ہے کہ ہمارے کھانے ہمارے مصالحوں کے بغیر بنتے نہیں۔ غلطی سے بھی اگر پاکستانی یا انڈین سرخ مرچ کے بجائے ترکیہ یا لاطینی امریکہ کی مرچ استعمال کرلو تو ذائقہ بھی ہاتھ سے جاتا ہے اور شکل بھی بدشکلی، لیکن ہمارے خشک مصالحہ جات نے اپنی بہترین کوالٹی کے باوجود  یورپی خریداروں کو اپنی جانب اتنا متوجہ نہیں کیا جتنا انڈین مصنوعات چھائی ہوئی نظر آتی ہیں۔

مصالحوں کے علاوہ نئے دور میں سوشل میڈیا کی بدولت ہربل میڈیسن  کا فیشن چل پڑا ہے۔ جرمنی، نیدر لینڈ، بیلجیم، اسکینڈنیویا، برطانیہ، امریکہ یہاں جڑی بوٹیوں کی دکانیں کسی مہنگے شوروم کی صورت اختیار کرگئی ہیں۔

ان ہربل شورومز  میں ہر وہ جڑی بوٹی خوبصورت پیکنگ میں مل جائے گی جو ہمارے مقامی پنسار نے بڑے سے مرتبان میں سجا رکھی ہوتی ہیں اور وزن کے حساب سے اخبار کی پُڑی میں رکھ کر دے دیتے ہیں۔ فرق صرف قیمت اور آئٹم کی پیشکش میں ہے۔

یہاں ہربل شوروم پہ دو مٹھی میتھی دانے کی قیمت صرف اچھی پیکنگ کے باعث لگ بھگ پندرہ سو روپے بن جاتی ہے۔ اس مارکیٹ میں بھی آیورویدک میڈیسن کے نام پہ معمول کے گرم مصالحے اور جڑی بوٹیاں صرف انڈیا بھیج رہا ہے ورنہ پاکستان کی پیداوار جڑی بوٹیاں بھی کسی صورت کم نہیں۔

وہ احباب جو بات بات پہ پاکستان کو نیچا دکھانے میں طاق ہوگئے ہیں ان کی مجبوری ہوتی ہے کہ کسی اور موضوع پہ مواد سوجھتا نہیں سو بس پاکستان پہ نکتہ چینی کے لیے وجہ چاہیے ہوتی ہے۔ پاکستان میں سیاست پہ لعنت بھیجنے کے علاوہ رونے کو اور بھی کئی موضوعات ہیں بالکل ایسے ہی ہم پاکستانیوں کو  شاباش دینے کے بھی ہزار راستے ہیں، ہزاروں الفاظ ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر