پاکستان کی سیاسی تاریخ میں عدلیہ تین فوجی حکومتوں کے تابع رہی ہے اور اکثر ’نظریہ ضرورت‘ کے تحت آمریت کی حمایت بھی کی ہے تاہم، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے بعد عدلیہ میں جوڈیشل ایکٹوازم کا آغاز ہوا، جس نے پاکستانی سیاست کو یکسر تبدیل کر دیا۔
پاکستان کی سیاست میں عدلیہ کچھ وقت کے لیے ایک آزاد اور طاقتور فریق کے طور پر ابھری، جو ایک ’پاور بروکر‘ کا کردار ادا کرنے لگی۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں دو اہم پیش رفت سامنے آئیں۔
ایک طرف عدلیہ نے نظریہ ضرورت کو دفن کر دیا اور ممکنہ فوجی بغاوتوں کو روکنے کے لیے ایک مضبوط رکاوٹ بن گئی۔ افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے بعد عدلیہ کے ادارہ جاتی نظم و ضبط نے پاکستان میں کسی بھی جج کے لیے فوجی حکمرانی کو قانونی جواز فراہم کرنا تقریباً ناممکن بنا دیا۔
دوسری طرف افتخار چوہدری اور ان کے جانشینوں کی قیادت میں عدلیہ نے آئین کے آرٹیکل 184-3 کے تحت سوموٹو (ازخود نوٹس) اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ایگزیکٹو کے دائرہ اختیار میں مداخلت شروع کر دی۔ روزمرہ اشیا کی قیمتوں میں اضافے، سکول فیسوں کے معاملات سے لے کر ڈیم فنڈز اکٹھا کرنے جیسے معاملات تک، عدلیہ نے خراب حکمرانی کو درست کرنے کی کوشش میں ایک سرگرم کردار ادا کیا۔
اگرچہ افتخار چوہدری کی عدالتی فعالیت نے پرویز مشرف کی فوجی حکمرانی کو ختم کرنے اور پاکستان میں جمہوریت کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا، لیکن ان کے ازخود نوٹس اکثر آئینی اور ادارہ جاتی حدود سے تجاوز بھی کر جاتے تھے۔ چنانچہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے دور کو ایک 'Mixed Legacy' سمجھا جاتا ہے۔
افتخار چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی عدلیہ نے ایک آزاد اور بااثر ادارے کے طور پر اپنی حیثیت برقرار رکھی۔ تاہم، اس دوران فوج اور عدلیہ کے تعلقات میں بہتری آئی۔ 2013 کے عام انتخابات کے دوران کاغذاتِ نامزدگی میں تنخواہ ظاہر نہ کرنے کی بنیاد پر نواز شریف کو نااہل قرار دینے اور اقتدار سے ہٹانے کے بعد پاکستان میں ’ہائبرڈ جمہوریت‘ کا آغاز ہوا۔
اس ہائبرڈ نظام میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت، ثاقب نثار کی سربراہی میں عدلیہ اور جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان گہرے تعلقات قائم ہوئے۔
اس دوران فوج نے ملکی سیاست میں نہ صرف مداخلت کی بلکہ خارجہ پالیسی اور ملکی سلامتی کے ساتھ معیشت کو بھی کنٹرول کرنا شروع کر دیا۔ تاہم، یہ سلسلہ اپریل 2022 میں عمران خان کی عدم اعتماد کے ذریعے برطرفی تک جاری رہا، جس کے بعد عمران خان اور عدلیہ، دونوں کے فوجی قیادت کے ساتھ اختلاف کھل کر سامنے آئے۔
جوڈیشل ایکٹوازم کی یہ مداخلت 26ویں آئینی ترمیم تک جاری رہی، جس نے عدلیہ کی طاقت کو کسی حد تک محدود کر دیا۔ اس ترمیم کے ذریعے عدلیہ کو ججوں کی تقرری میں حاصل آزادی بھی چھین لی گئی، جس سے عدلیہ کی ادارہ جاتی خودمختاری کو نقصان پہنچا۔
اختیارات کی علیحدگی کا اصول کسی بھی جمہوری نظام کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن پاکستان میں عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان طاقت کی کشمکش اور فوج اور سول حکومت کے درمیان طویل کشیدگی نے جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا۔
عدلیہ کی ایگزیکٹو امور میں مداخلت کے دو اہم نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ اول، اس ادارہ جاتی عدم توازن نے فوج کو دوبارہ برتری دے دی ہے، جسے افتخار چوہدری کے دور میں دھچکا لگا تھا۔ تاہم، دو دہائیوں کے بعد فوج نے اپنی طاقت کو بحال کر لیا ہے۔
دوسرا نتیجہ عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان جاری کشمکش کی صورت میں سامنے آیا، جس نے دونوں اداروں کو اندرونی تقسیم اور باہمی اختلافات کا شکار بنا دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ملک میں حکومتی اشرافیہ کے درمیان اتفاق رائے کی کمی نے پاکستان کو سیاسی عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اس عدم استحکام سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ قومی سطح پر تمام ادارے اپنے آئینی مینڈیٹ کا احترام کریں اور ایک دوسرے پر اثر و رسوخ قائم کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر نظر رکھیں۔
اس مقصد کے لیے ایک 'سچائی اور مفاہمتی کمیشن' کی تشکیل ضروری ہے تاکہ ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے نئے قومی اتفاق رائے کی راہ ہموار کی جا سکے۔
ایک خودمختار اور مضبوط عدلیہ، کسی بھی مستحکم جمہوریت کا لازمی جزو ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان میں افتخار چوہدری کی عدالتی فعالیت سے لے کر، جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے نواز شریف کو تکنیکی بنیادوں پر نااہل قرار دینے اور جسٹس فائز عیسیٰ کے 2024 کے عام انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کو اس کے انتخابی نشان 'بلے' سے محروم کرنے جیسے فیصلوں تک، عدلیہ کے کردار پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔
پاکستان اس وقت ادارہ جاتی تنزلی، بگڑتی ہوئی سکیورٹی، خراب معیشت اور ریاست و معاشرے کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے میں جکڑا ہوا ہے۔ اس بحران سے نکلنے کا راستہ اگرچہ مشکل ہے، لیکن ناممکن نہیں۔
اس کے لیے قومی اتفاق رائے، ادارہ جاتی اصلاحات اور اختیارات کی علیحدگی کا اصول اپنانا ہوگا۔ ہر ادارے کو اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرنا ہوگا تاکہ پاکستان میں جمہوری استحکام ممکن بنایا جا سکے۔
مصنف ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور میں سینئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔ X: @baistresearcher.
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔