سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعت سپریم کورٹ کے فل کورٹ کے سامنے پیر کو ہوئی جس کے دوران وکلا پر ججوں کے سوالات کی بھر مار رہی۔
ایک موقع پر امتیاز صدیقی ایڈوکیٹ نے ججز کے تسلسل کے ساتھ سوالات سننے کے بعد کہا ’الاؤ می بریدر‘ یعنی ’مجھے دم تو لینے دیں۔‘ اس کے بعد کمرہ عدالت میں دبے دبے قہقے گونج اٹھے۔
ملک کے سینیئر ترین پندرہ ججوں کے سامنے کھڑے ہو کر دلائل دینا وکلا کے لیے مشکل دکھائی دے رہا تھا۔
لیکن سماعت یہاں سے شروع نہیں ہوئی تھی۔ آغاز سے قبل جب چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ پہنچے تو انہیں پولیس نے گارڈ آف آنر دینے کی کوشش کی جس پر انہوں نے انکار کر دیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے گارڈ آف آنر لینے سے انکار کرتے ہوئے پولیس کو اپنی ذمہ داریاں دل جمعی سے ادا کرنے کی ہدایت کی۔
فل کورٹ اجلاس
سماعت سے قبل چیف جسٹس کی زیر صدارت فل کورٹ اجلاس ہوا جس میں زیر التوا مقدمات، ترجیحی بنیادوں پر سماعت والے کیسز، عدالتی کارروائی کی لائیو سٹریمنگ اور کیسز کی سماعتوں کو موثر بنانے کے لیے گائیڈ لائنز کا جائزہ لیا گیا۔
اس اجلاس کی طوالت کے سبب سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعت میں تاخیر ہوئی۔
اس دوران صحافی اور وکلا آپس میں باتیں کر رہے تھے لیکن موضوع گفتگو قاضی فائز تھے۔ کوئی ان کا موازنہ جسٹس ریٹائرڈ افتخار چوہدری سے کر رہا تھا تو کوئی جسٹس ریٹائرڈ آصف سعید کھوسہ سے۔
ایک وکیل نے کہا کہ ’لگتا ہے اس وقت تک سماعت شروع نہیں ہوگی جب تک پورا میڈیا نہ آجائے‘، اس پر ایک خاتون صحافی بولیں ’یہ افتخار چوہدری نہیں فائز عیسیٰ ہیں۔‘
بالآخر سماعت شروع ہونے سے قبل جب ججز نے کمرہ عدالت میں آنا شروع کیا تو چیف جسٹس سب سے آخر میں آئے اور کمرہ عدالت میں موجود تمام افراد کے سامنے ہلکا سا جھک سلام کیا اور اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔
سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے تاخیر پر معزرت کی اور پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) پر عدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی اجازت دی۔
اس بات کا اندازہ وہاں موجود وکلا اور صحافیوں کو پہلے ہی ہو گیا تھا کیوں کہ سماعت کے آغاز سے قبل پی ٹی وی کا عملہ کیمرے لگانے میں مصروف تھا۔
ایک صحافی نے کہا ’چلو ہمارا کام تو کم ہوا، اب تو سب کچھ براہ راست جائے گا۔ اب تو گھر سے بیٹھ کر تفصیل بتا دیں گے۔‘
خیر عدالتی کارروائی پی ٹی وی پر نشر ہونا شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے درخواستوں کی پیروی کرنے والے وکلا کی حاضری لگوائی اور پھر خواجہ طارق رحیم نے دلائل دینا شروع کیے۔
ابھی دلائل شروع ہی ہوئے تھے پندرہ ججوں پر مشتمل فل کورٹ کے رکن ججوں نے خواجہ طارق رحیم سے سوالات کرنے شروع کیے جن کی وضاحت درکار تھی۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اس نکتے پر دلائل دیں کہ ’یہ ایکٹ کس طرح آئین سے متصادم ہے اور جو سوالات پوچھے جا رہے ہیں انہیں آپ نے ایسوسی ایٹس لکھ لیں اور بعد میں تفصیل سے جواب دے لیں۔‘
اس کے بعد خواجہ طارق رحیم نے پھر دلائل کا سلسلہ شروع کیا اور اسے اس مقدمے کی گذشتہ سماعتوں کا حوالہ دینے لگے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’خواجہ صاحب ایسا نہ کریں، ہم ماضی کو دفن نہیں کر سکتے لیکن آپ ایسے دلائل دیں جیسے مقدمے کی پہلی سماعت ہو۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن پھر کچھ دیر گزری اور جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس منیب اختر نے سوالات کیے تو خواجہ طارق رحیم ان کے جوابات دینے لگے اور پھر چیف جسٹس کو کہنا پڑا کہ ’خواجہ صاحب ہم آپ کی زندگی آسان کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور آپ ہیں کہ جو سوال کیا جاتا ہے اس کا جواب دینا شروع کر دیتے ہیں یہ آپ کے خلاف جاسکتا ہے، آپ سوالات کا سوچ سمجھ کر جواب دے سکتے ہیں، ہم آپ کو سنیں گے۔‘
سماعت جاری تھی اور کمرہ عدالت جو پہلے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا خالی ہونے لگا کیوں کہ ٹی وی پر کارروائی زیادہ بہتر طور پر سنی جاسکتی تھی۔ سپریم کورٹ کے وسیع کمرہ نمبر ایک میں ججوں کو سننا کافی مشکل رہا ہے۔
صحافیوں اور وکلا کی ’آنیاں جانیاں لگی ہوئی تھیں‘ سماعت جاری تھی۔
سماعت کے دوران ایک موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے خواجہ رحیم سے کہا کہ ’آپ کو یہ کہنا پڑے گا کہ یہ ایکٹ آئین سے متصادم ہے یا اس کی شق 184-3 بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے آپ یہ کہہ ہی نہیں رہے ہیں تاکہ اس کے آگے آپ اپنا کیس بلڈ اپ کریں۔‘
اس پر خواجہ رحیم اپنے ایسوسی ایٹ کی جانب مشورے کے لیے مڑے ہی تھے کہ چیف جسٹس نے کہا کہ ’یہ مشورے کی جگہ نہیں ہے، یہ کام آپ کو اپنے دفتر میں کرنا چاہیے تھا۔‘ اس کے بعد کمرہ عدالت میں چند لمحات کی خاموشی رہی اور پھر دلائل شروع ہوئے۔
اس کے بعد ایک اور پٹیشن پر امتیاز صدیقی ایڈوکیٹ نے دلائل شروع ہی کیے تھے کہ ’چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ ’اس ایکٹ کے ذریعے پارلیمنٹ نے ہم سے اختیار چھینا نہیں بلکہ مزید نچھلی سطح تک تفویض کیا ہے۔ پہلے صرف جسٹس کے پاس اختیار ہوتا تھا کہ وہ کوئی کیس لگائے یا ہیں اب یہ کام مزید دو ججز کے مشورے سے ہوگا تو آپ اس پر دلائل دیں کہ یہ کیسے آئین سے متصادم ہے؟‘
اس پر امتیاز صدیقی نے دلائل کا آغاز یہاں سے کیا کہ ’سپریم کورٹ کے کئی فیصلے ہیں۔۔۔‘ اس پر چیف جسٹس نے انہیں ٹوکا اور کہا ’آئین پر فیصلے حاوی نہیں ہوتے۔‘
ایک بار پھر کمرہ عدالت میں خاموشی چھا گئی کئی وکلا آنکھیں اچکا کر یہ جملہ دہرا رہے تھے ’فیصلے آئین پر حاوی نہیں ہوتے۔‘
ابھی امتیاز صدیقی نے دلائل دینے شروع ہی کیے تھے کہ جسٹس اطہر من اللہ نے انہیں ٹوک دیا اور کہا ’میں آپ کے لیے آسان کردیتا ہوں کہ آپ اس پر دلائل دیں کہ چیف جسٹس کے اختیار میں مزید دو ججوں کو شامل کرنا آئین سے کیسے متصادم ہے اور اگر یہی کام چیف جسٹس خود کرے کہ میں مشورہ کروں گا دو ججز سے تو ٹھیک ہے؟
اس کے فوراً بعد جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا۔ سوال ختم ہوتے ہیں امتیاز صدیقی ایڈوکیٹ نے کہا ’الاؤ می بریدر‘ یعنی ’مجھے دم تو لینے دیں۔‘
اس کے بعد انہوں اپنے دلائل کے حق میں آرٹیکل 9 اور 10 کا حوالہ تو جسٹس منصور علی شاہ نے ان سے استفسار کیا کہ ’امتیاز صاحب آپ یہ ہمارے سوالات لکھ کہاں رہے ہیں ہم بولے جا رہے ہیں اور آپ سنتے جا رہے ہیں۔‘
پہلا دن
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے صبح آمد پر استقبال پر سپریم کورٹ کے عملہ سے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ سب کے تعاون سے مل کر کام کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج پہلے دن متعدد اجلاس ہیں، میں آپ لوگوں سے بعد میں ملوں گا۔
چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے عملہ پر واضح کیا کہ عدالتوں میں لوگ اپنے جھگڑے اور مسائل کے خاتمہ کے لیے آتے ہیں۔ ’آپ لوگ عدالت آنے والوں سے ایسا سلوک کریں کہ جیسا میزبان اپنے مہمان کے ساتھ کرتے ہیں۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ لوگ پریشانی کے عالم میں عدالت آتے ہیں۔ ’آپ انصاف کے دروازے کھلے رکھیں اور جہاں تک ممکن ہوسکے ان کی مدد کیجیے۔‘