ڈیزائن ہم نے ہوٹل بھیج دیا، خود پھول دار بیڈ شیٹس خرید لیں

برصغیر کی عمارتیں، مندر، مسجدیں، محل، مزار، کھانے، زیور، کس چیز میں ڈیزائن نہیں تھا؟ ہمارے تو خنجر اور تلواریں بھی ہیرے موتی والے نیاموں میں رہتے تھے، ہمارے دو پیسے کا گھڑا تک پھول بوٹوں سے بھرا ہوتا تھا، ہماری پوری تاریخ کا نام ڈیزائن تھا اور اب؟

زندگی میں ایک چیز جو میں نے 44 سال بور ہونے کے بعد دریافت کی، آپ کو بتا دیتا ہوں، شاید کوئی فرق پڑ جائے، بوریت سب کچھ ایک جیسا لگنے کا دوسرا نام ہے۔

بوریت نام ہے یکسانیت کا، چیزوں کے نہ بدلنے کا، ایک ہی منظر ہونے کا، کوئی تبدیلی نہ ہونے کا ۔۔۔ لیکن ایسا ہو کیوں رہا ہے؟

ہم لوگ اتنی زیادہ ترقی کر چکے ہیں جتنی آج سے 50 سال پہلے سوچ بھی نہیں سکتے تھے، مصروف رہنے کو ہمارے پاس 24 گھنٹے کا موبائل موجود ہے، پھر کیوں ہر انسان اکتایا ہوا ہے؟ کیوں لگتا ہے کہ یہ سانس تو نکلی گئی، اگلی کے لیے دور کہیں جانا پڑے گا جہاں یہ سب کچھ نہ ہو۔

یہ سب کچھ نہ ہو تو کیا ہو؟ بہت باریک چیز ہے ۔۔۔ ڈیزائن!

ہماری پوری زندگی سے ڈیزائن کا ایلیمنٹ نکل چکا ہے۔ انگریزی استعمال کرنا ضروری ہے یہاں، ایک لفظ اور دیکھ لیں، ایکسیسرائز کرنا (accessorize) یعنی سجاوٹ کے خیال سے کوئی چیز استعمال کرنا، سجاوٹ کو ہم ہاتھ باندھ کے رخصت کر چکے ہیں۔

سب سے پہلے اپنے موبائل فون کی مثال دیکھ لیں۔ سب ایک جیسے ہیں، وہی ایک سکرین، ایک بٹن، کیمرے کے دو یا تین سوراخ، کیا اس کی شکل میں کوئی تبدیلی ہونا ممکن ہی نہیں رہ گئی؟ آپ نے سات لاکھ کا فون رکھا ہو یا بیس ہزار کا، فیصلہ کیا صرف کیمرے کریں گے؟ جو کمپنی آپ سے اتنی زیادہ رقم وصول کر رہی ہے کہ جس میں دو 125 موٹر سائیکلیں آ سکتی ہوں، ایک چھوٹی موٹی غریب نواز گاڑی آ سکتی ہو، وہ آپ کو ڈیزائن کے نام پہ کیا دے رہی ہے؟ ایک نہیں جو مرضی کمپنی دیکھ لیں، کیا ہے ان کے پاس؟

اپنے گھر میں پڑی ہوئی بیڈ شیٹس دیکھ لیں، ہوٹل کا کمرہ کیوں لگتا ہے کہ وہاں کچھ الگ ہے، گھر گھر کیوں لگتا ہے؟ یہاں آپ کے پاس فالتو پرنٹس کی بھرمار ہے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ سب کی بیڈ شیٹوں پہ پھول بوٹے ہیں اور سب کے پردوں پہ رنگ برنگی بھاری گُل کاریاں ہیں ۔۔۔ ڈیزائن کہاں گیا؟ ڈیزائن شاید فائیو سٹار ہوٹلوں میں شفٹ ہو گیا ہے مستقل لیکن کیسے؟ ان کی تو چادریں اور تکیے تک سفید ہوتے ہیں، پردے بھی ایک دم سادے، تو پھر کیا چیز انہیں ہوٹل کا خوبصورت کمرہ بناتی ہے؟

ڈیزائن! پردہ سادہ ہے لیکن شنیل کا ہے، پیچھے ایک جالی والا باریک پردہ الگ ہے، وہ اور سادہ سفید بیڈ شیٹ جگہ بناتے ہیں آنکھوں میں تاکہ دیوار پہ لگی ہوئی پینٹنگ اور سامنے موجود بڑا سا آئینہ، سنگھار میز اور کرسی کمرے کو بھر نہ دیں۔ وہ جو چھ جگہ پہ لائٹس لگی ہوتی ہیں وہ بھی طویل سوچ کے بعد لگائی جاتی ہیں کہ کمرہ کس لائٹ سے کتنا بھرا ہوا لگے گا، انسانی آنکھ کو اچھا کیا لگے گا اور فالتو کیا لگے گا ۔۔۔ اس لیے ہوٹل والا کمرہ گھر سے الگ لگتا ہے۔ آپ لے جائیں اپنی بیڈ شیٹ وہاں، جاتے ساتھ بچھا دیں، پھر دیکھیں ہوٹل میں کتنا ہوٹل پنا باقی رہ جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کپڑوں کو دیکھ لیں، ابھی تیس چالیس سال پہلے تک ’ریڈی میڈ‘ کا تصور کتنا تھا ہمارے یہاں؟ اب مسئلہ یہ ہے کہ آپ وہی پہنیں گے جو ان لوگوں نے بنا کے دینا ہے، سب کا فیشن سینس، سب کے ڈیزائن، سب کا حلیہ وہی ہو گا جو دس کمپنیاں چاہیں گی، کون سی دس؟ وہی جنہیں عید اور شادیوں پہ آپ کھڑکی توڑ سیل دیتے ہیں۔

گاڑی، موٹر سائیکل، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر، سمارٹ واچ، یہ چھ چھ فٹ کی ایل سی ڈیز، اونچی عمارتیں، شاپنگ مالز ۔۔۔ سب کے سب ایک شکل کے ہیں، اسی لیے بوریت ہے اور یہی کنزیومر کلچر ہے۔ ایسی چیز بناؤ جو سب کو سمجھ آتی ہو اور وہ چیز جتنی بیسک ہو اتنا بہتر ہے۔ فیشن اور ڈیزائن کے نام پہ جو کچھ ہمیں ملتا ہے وہ انتہائی بنیادی اور سادہ ہے، اسی لیے ایک جیسا لگتا ہے، اسی لیے بوریت ہوتی ہے اور اس بوریت کو ختم کرنے کا واحد حل ڈیزائن ہے، زندگی کو، خود کو، اپنے اردگرد کو ایکسیسرائز کرنا ہے۔

یہ کیسے ہو گا؟

اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے تک ہمیں وہ کچھ سکھایا جاتا ہے جو ہمارے چنے ہوئے مضمون سے متعلق ہوتا ہے۔ زندگی کیسے گزارنی ہے، یکسانیت کیسے توڑنی ہے، کیا کھانا ہے، کیا پہننا ہے، کم وسائل میں کیسے رہنا ہے یہ ہمیں پہلے زمانے وہ کتابیں سکھاتی تھیں جو کورس میں نہیں ہوتی تھیں، قسمت ہوتی تھی تو آس پاس کا ماحول سکھاتا تھا لیکن اب صرف انٹرنیٹ سکھا سکتا ہے، وہ بھی تب کہ جب آپ جاننا چاہیں۔

ہم لوگ تو ویسے بھی یار ڈیزائن کے حساب سے امیر ترین لوگ ہیں، برصغیر کی عمارتیں، مندر، مسجدیں، محل، مزار، کھانے، زیور، کس چیز میں ڈیزائن نہیں تھا؟ ہمارے تو خنجر اور تلواریں بھی ہیرے موتی والے نیاموں میں رہتے تھے، ہمارے دو پیسے کا گھڑا تک پھول بوٹوں سے بھرا ہوتا تھا، ہماری پوری تاریخ کا نام ڈیزائن تھا اور اب ۔۔۔

اب ہمارا ڈیزائن وہ ہے جو پوری دنیا کا ہے!

اسی لیے ہم بور ہوتے ہیں اسی لیے ہمیں سب کچھ ایک جیسا لگتا ہے اور اسی لیے ہم کسی چیز سے جڑ نہیں پاتے۔

جوڑنے کے لیے رہ کیا گیا ہے؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ