امریکی ریاست کیلی فورنیا میں ایک معروف ہندو مندر کو ہفتے کو نقصان پہنچایا گیا، جس کی انڈین حکومت نے شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ’قابل نفرت‘ عمل قرار دیا اور امریکی حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کریں۔
یہ حملہ جنوبی کیلی فورنیا کے شہر چینو ہلز میں واقع بی اے پی ایس شری سوامی نرائن مندر پر کیا گیا۔ یہ واقعہ لاس اینجلس میں مارچ کے مہینے میں مجوزہ ’خالصتانی ریفرنڈم‘ سے چند روز قبل پیش آیا۔
یہ ریفرنڈم انڈیا کے شمالی پنجاب میں خودمختار سکھ ریاست کے قیام سے متعلق ایک غیر رسمی ووٹ ہے۔
ذرائع ابلاغ کی متعدد اطلاعات کے مطابق مندر کی دیواروں پر ’ہندو مخالف‘ اور ’مودی مخالف‘ نعرے لکھے گئے۔
انڈیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا کہ نئی دہلی کو اس واقعے پر گہری تشویش ہے اور حکومت عبادت گاہوں کی بہتر سکیورٹی کا مطالبہ کرتی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ’ہم ایسے قابل مذمت اقدامات کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ ہم قانون نافذ کرنے والے مقامی اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کریں اور عبادت گاہوں کی مناسب سکیورٹی یقینی بنائیں۔‘
بی اے پی ایس، جس نے مندر کا انتظام سنبھال رکھا ہے، نے بیان میں کہا کہ نفرت کو برادریوں کے درمیان تقسیم پیدا کرنے کی اجازت نہیں دے جائے گی۔
بی اے پی ایس کے پبلک افیئرز ڈپارٹمنٹ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’ایک اور مندر کی بے حرمتی کے خلاف، اس بار چینو ہلز، کیلی فورنیا میں، ہندو برادری نفرت کے خلاف ثابت قدم ہے۔‘
’چینو ہلز اور جنوبی کیلی فورنیا کی برادری کے ساتھ مل کر، ہم نفرت کو کبھی جڑیں پکڑنے نہیں دیں گے۔ ہماری مشترکہ انسانیت اور عقیدہ یقینی بنائے گا کہ امن اور ہمدردی غالب رہیں۔‘
امریکہ میں ہندو تنظیموں نے اس تازہ حملے کی شدید مذمت کی جب کہ حالیہ مہینوں میں مندروں پر حملوں میں اضافے پر بڑھتی ہوئی تشویش کا اظہار کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کولیشن آف ہندوز آف نارتھ امریکہ (سی او ایچ این اے) جو امریکہ میں ہندوؤں کے حقوق کے لیے سرگرم ایک تنظیم ہے، نے بھی اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے مندروں کو نقصان پہنچانے کے حالیہ کے سلسلے سے جوڑا اور مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
تنظیم نے ایکس پوسٹ میں کہا کہ ’ایک اور ہندو مندر کو نشانہ بنایا گیا۔ اس بار چینو ہلز، کیلی فورنیا میں واقع مشہور بی اے پی ایس مندر۔ حیرت کی بات نہیں کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب نام نہاد خالصتان ریفرنڈم کا دن قریب آ رہا ہے۔‘
خالصتانی تحریک آزاد سکھ ریاست کا قیام چاہتی ہے، جو انڈیا سے الگ ہو۔ تحریک کی جڑیں 1947 میں انڈیا اور پاکستان کی آزادی کے وقت تک جاتی ہیں۔ یہ تصور اس وقت ہونے والے مذاکرات میں بھی زیرِ بحث آیا جب پنجاب کے خطے کو دونوں نئے ممالک کے درمیان تقسیم کیا جا رہا تھا۔
سکھ مذہب کی بنیاد 15ویں صدی کے آخر میں پنجاب میں رکھی گئی اور آج اس کے دنیا بھر میں تقریباً ڈھائی کروڑ پیروکار ہیں۔ سکھ پنجاب میں اکثریت میں ہیں لیکن انڈیا میں وہ 1.4 ارب کی آبادی کا محض دو فیصد بنتے ہیں۔
سکھ علیحدگی پسندوں کا مطالبہ ہے کہ ان کے لیے ’خالصتان‘ یعنی ’پاک سرزمین‘ کے نام سے خودمختار ملک پنجاب سے الگ بنا دیا جائے۔
یہ مطالبہ وقتاً فوقتاً سامنے آتا رہا ہے لیکن سب سے زیادہ شدت کے ساتھ 1970 اور 1980 کی دہائی میں ایک خونی بغاوت کے دوران کیا گیا جس نے10 سال سے زیادہ عرصے تک پنجاب کو مفلوج کیے رکھا۔
شمالی امریکہ میں کئی ہندو مندروں کو خالصتانی تحریک سے متعلق نعرے اور دوسری تحریریں لکھ کر نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
گذشتہ سال ستمبر میں بوچاسنواسی شری اکشر پرشوتّم سوامی نرائن سنستھا (بی اے پی ایس) کے میلویل، سفوک کاؤنٹی میں واقع مندر کے سائن بورڈ اور ڈرائیو وے پر رنگ سپرے کر کے انہیں نقصان پہنچایا گیا۔ پولیس کے مطابق، حملہ آوروں نے ’ہندو مخالف‘ نعرے لکھے جن کا ہدف انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی بھی تھے۔
2022 میں ٹورنٹو کے ایٹو بیکو میں واقع بی اے پی ایس سوامی نرائن مندر کی دیواروں پر خالصتانی گرافٹی لکھی گئی۔ اس وقت مندر کی انتظامیہ نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ شرپسند عناصر کا کام ہے‘ اور برادری سے امن قائم رکھنے کی اپیل کی۔
© The Independent