مودی کے زیر قیادت انڈیا میں مسلم مخالف نفرت انگیز تقاریر میں اضافہ: رپورٹ

انڈیا ہیٹ لیب (آئی ایچ ایل) نے ایک رپورٹ میں کہا کہ اس چونکا دینے والے اضافے کا ’انڈٰیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے نظریاتی عزائم اور وسیع تر ہندو قوم پرست تحریک کے ساتھ  گہرا تعلق ہے۔‘

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی 8 فروری 2025 کو نئی دہلی میں دہلی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں پارٹی کی جیت کا جشن منانے کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ہیڈ کوارٹر پہنچتے ہی اپنے حامیوں کو ہاتھ ہلا رہے ہیں۔ دوسری جانب انڈین تھنک ٹینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کی زیر قیادت ملک میں مسلم مخالف نفرت انگیز تقاریر میں اضافہ ہوا ہے (سجاد حسین/ اے ایف پی)

امریکہ میں قائم ایک تھنک ٹینک نے پیر کو کہا ہے کہ 2024 میں انڈیا میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقریروں میں ’بہت زیادہ‘ اضافہ ہوا ہے۔

انڈیا ہیٹ لیب (آئی ایچ ایل) نے ایک رپورٹ میں کہا کہ یہ چونکا دینے والے اضافے کا ’انڈٰیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے نظریاتی عزائم اور وسیع تر ہندو قوم پرست تحریک کے ساتھ  گہرا تعلق ہے۔‘

گذشتہ سال انڈیا میں ہونے والے سخت انتخابی مقابلے کے دوران ناقدین اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر الزام لگایا کہ انہوں نے انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دیے جس کی مثال نہیں ملتی۔ ان بیانات کا مقصد ہندو اکثریت کو متحرک کرنا تھا۔

اپنی ریلیوں میں، مودی نے مسلمانوں کو ’گھس بیٹھیا‘ کہا اور یہ دعویٰ کیا کہ اگر اپوزیشن جماعت کانگریس اقتدار میں آئی تو وہ ملک کی دولت مسلمانوں میں تقسیم کر دے گی۔

مودی نے جون میں مسلسل تیسری بار وزیراعظم بننے کی کامیابی حاصل کی لیکن انتخابی نتائج میں چونکا دینے والی ناکامی کے باعث، بی جے پی کو 10 سال میں پہلی بار اکثریت کے بغیر حکومت بنانی پڑی اور اس نے مخلوط حکومت بنائی۔

نفرت انگیز تقاریر میں بے تحاشہ اضافہ

بی جے پی کی ہندو قوم پرستانہ بیان بازی نے انڈیا کے 22 کروڑ سے زائد مسلمانوں میں ان کے مستقبل کے حوالے سے شدید بےچینی پیدا کر دی ہے۔

آئی ایچ ایل کی رپورٹ کے مطابق ’2023 میں مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے نفرت انگیز بیانات کے 668 واقعات رپورٹ ہوئے جو 2024 میں بڑھ کر 1165 تک پہنچ گئے یعنی ان میں بہت زیادہ 74.4 فیصد اضافہ ہوا۔‘

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ’چوں کہ 2024 عام انتخابات کا سال تھا اس لیے اس نے نفرت انگیز بیانات کے رجحانات کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔‘

تحقیق کے مطابق 98.5 فیصد نفرت انگیز تقاریر مسلمانوں کے خلاف کی گئیں اور ان میں سے دو تہائی سے زائد بیانات ان ریاستوں میں دیے گئے جو بی جے پی یا اس کے اتحادیوں کے کنٹرول میں ہیں۔

خطرہ

رپورٹ کے مطابق بی جے پی کے رہنماؤں نے 450 سے زائد نفرت انگیز تقاریر کیں، جن میں سے 63 خود وزیراعظم نریندر مودی کی تھیں۔

بی جے پی نے رپورٹ کی اشاعت سے پہلے اے ایف پی کی جانب سے تبصرے کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا، تاہم ماضی میں پارٹی ایسے الزامات کو ’بے بنیاد‘ اور ’جھوٹا‘ قرار دے کر مسترد کرتی رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رپورٹ میں کہا گیا کہ ’مسلمانوں کو خاص طور پر ہندوؤں اور انڈین قوم کے لیے حقیقی خطرے کے طور پر پیش کیا گیا۔‘

رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا کہ ’سب سے زیادہ خطرناک اضافہ ان تقاریر میں ہوا جن میں عبادت گاہوں کی تباہی کی حمایت کی گئی۔‘

ہندو بالادستی کے حامیوں  نے مسلمانوں سے مذہبی مقامات واپس لینے کے مطالبے کو مزید شدت دی۔

یہ رجحان اس وقت مزید بڑھ گیا جب مودی نے گذشتہ سال کے انتخابات سے قبل عظیم الشان رام مندر کا افتتاح کیا۔

یہ مندر اس جگہ پر تعمیر کیا گیا جہاں صدیوں پرانی بابری مسجد موجود تھی جسے بی جے پی کے حمایت یافتہ ہجوم نے منہدم کر دیا تھا۔

انڈیا ہیٹ لیب کے تجزیے کے مطابق نفرت انگیز مواد پھیلانے کے لیے فیس بک، یوٹیوب اور ایکس سب سے بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز رہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ انتخابات کے دوران، بی جے پی کے بڑے رہنماؤں کی 266 ’اقلیت مخالف نفرت انگیز تقاریر‘ کو یوٹیوب، فیس بک، اورایکس  پر بیک وقت پوسٹ کیا گیا۔ یہ تقاریر بی جے پی اور اس کے رہنماؤں کے آفیشل اکاؤنٹس کے ذریعے شیئر کی گئیں۔

انڈیا ہیٹ لیب واشنگٹن میں قائم ایک غیر منافع بخش تھنک ٹینک، سینٹر فار دا سٹڈی آف آرگنائزڈ ہیٹ (سی ایس او ایچ)  کا حصہ ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا