1984 میں ڈونلڈ ٹرمپ کی پروفائل لکھنے والے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ ٹرمپ ایک بات کی وجہ سے اتنے ناراض تھے کہ انہوں نے عملے کو ہدایت دی کہ نیویارک کے تمام سٹالز سے وہ میگزین خرید لیں۔
امریکی میگزین وینٹی فیئر کے سابق ایڈیٹر گرےڈن کارٹر، جن کی عمر اس وقت 75 سال ہے، نے ایم ایس این بی سی پر جو اسکاربرو کو بتایا کہ وہ 40 سال پہلے جی کیو (GQ) میگزین کے لیے ٹرمپ پر فیچر کر رہے تھے اور تین ہفتے ان کے ساتھ گزارے تاکہ اُن کی شخصیت کو سمجھا جا سکے۔ تاہم ٹرمپ کو مضمون کے کچھ حصے سخت ناپسند آئے۔
کارٹر نے کہا: ’کچھ باتیں انہیں پسند نہیں آئیں، خاص طور پر یہ کہ میں نے لکھا کہ ان کے ہاتھ ان کے جسم کے لحاظ سے چھوٹے لگتے ہیں۔ یہ بات انہیں بالکل بھی پسند نہیں آئی — انہیں سرورق پسند آیا، مگر مضمون نہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ٹرمپ نے اپنے عملے کو حکم دیا کہ وہ نیویارک کے تمام نیوز سٹینڈز سے میگزین کی جتنی بھی کاپیاں ملیں، خرید لیں۔‘
اس پروفائل میں ٹرمپ کی ظاہری شخصیت پر بھی روشنی ڈالی گئی تھی۔ انہوں نے لکھا: ’چھ فٹ دو انچ لمبا، دبلا مگر صحتمند۔ ہاتھ چھوٹے اور صاف ستھرے۔ نیلا اور سٹائلش سوٹ – شاید ٹانگوں میں کچھ زیادہ پ
ھیلا ہوا، جو کہ ہڈسن کے مشرق میں رہنے والوں کے لیے غیرمعمولی ہے۔‘
ایک اور تفصیل یوں تھی: ’اس شخص کی اصل شناخت اس کے کف لنکس سے ظاہر ہوتی ہے: سونے اور پتھر کے بنے بڑے بڑے جو آدھے ڈالر کے سکے جتنے ہیں۔‘
ٹرمپ کے ہاتھوں کی تفصیل نظرانداز نہ کی جا سکی۔ 2016 کی رپبلکن پرائمری میں جب مارکو روبیو ان کے خلاف امیدوار تھے، تو انہوں نے اس بات کو تنقید کے طور پر استعمال کیا: ’آپ جانتے ہیں، چھوٹے ہاتھوں والے مردوں کے بارے میں کیا کہا جاتا ہے – ان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔‘ اور بھی بہت کچھ کہا جاتا ہے ایسے مردوں کے بارے میں جن کے ہاتھ چھوٹے ہوں۔
کارٹر نے انکشاف کیا کہ اس مضمون کا ایک ’بٹر فلائی ایفیکٹ‘ بھی ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ جی کیو کے مالک کو مضمون اور میگزین کی غیرمعمولی فروخت دیکھ کر لگا کہ ’یہ آدمی سٹار ہے۔‘
چنانچہ اسی بنیاد پر انہوں نے ٹرمپ پر کتاب لکھوانے کا حکم دیا — جو بعد میں ’دی آرٹ آف دی ڈیل‘ بنی۔
1987 میں شائع ہونے والی ’دی آرٹ آف دی ڈیل‘ ٹرمپ کی پہلی کتاب تھی۔ یہ کتاب انہوں نے صحافی ٹونی شوارٹز کے ساتھ لکھی، اور یہی ان کی شہرت کا آغاز ثابت ہوئی۔
شوارٹز، جو اب ٹرمپ کے سخت ناقد ہیں، نے اس کتاب کو ’بلا شک و شبہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی پشیمانی‘ قرار دیا اور کہا کہ ٹرمپ کی سودے بازی کی مہارت پر مبنی یہ کتاب دراصل ایک افسانہ کہلانی چاہیے۔ شوارٹز اور کتاب کے اصل پبلشر ہاورڈ کمیسکی دونوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے اس کتاب میں کچھ بھی نہیں لکھا۔ کمیسکی کے مطابق: ’انہوں نے تو ہمارے لیے ایک پوسٹ کارڈ تک نہیں لکھا۔‘
کارٹر نے سکاربرو کو بتایا کہ وہ رپبلکن صدر کے پہلے دورِ حکومت کے بیشتر حصے میں ملک چھوڑ کر باہر چلے گئے تھے۔ وہ جو کبھی ٹرمپ کے دوست تھے، گذشتہ دس برسوں میں ان کے سخت ناقد بن چکے ہیں۔
کارٹر نے کہا: ’ایسا لگتا ہے جیسے وہ سمندر ایک طرح کی حفاظتی گدی ہو — جیسے آپ کسی گینگ وار کی فائرنگ میں ہوں اور آپ کے پاس بچاؤ کے لیے ایک گدا ہو ۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’میرے خیال میں یہ وقت 1950 کی دہائی کے بعد سب سے زیادہ تاریک دور ہے۔
© The Independent