انڈین وزیر اعظم نریندر مودی اگلے ہفتے واشنگٹن ڈی سی کا دورہ کریں گے جہاں وہ ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔ اس ملاقات کا مقصد تجارتی محصولات اور انڈین ہنر مند کارکنوں کے لیے ویزے سے متعلق خدشات پر گفتگو کرنا ہے۔
انڈین وزیر اعظم، اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کے بعد، وہ دوسرے غیر ملکی رہنما ہیں جنہیں وائٹ ہاؤس نے مدعو کیا، جب سے ٹرمپ نے گذشتہ ماہ اپنا دوسرا دور صدارت شروع کیا۔
یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب انڈیا میں امریکہ کے خلاف غم و غصہ بڑھ رہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ رواں ہفتے امریکہ نے ایک سو سے زائد غیر قانونی انڈین تارکین وطن کو توہین آمیز طریقے سے ملک بدر کر کے واپس جنوبی ایشیا بھیج دیا۔
خارجہ پالیسی کے ماہرین کا ماننا ہے کہ مودی اور ٹرمپ کے درمیان امیگریشن، تجارت اور اسلحے کی فروخت پر بات چیت ہوگی۔ چین کا معاملہ بھی ایجنڈے میں شامل ہوگا کیوں کہ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ انڈیا، ایشیائی طاقت چین کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے میں مدد کرے۔
مودی کے دورہ امریکہ کا اعلان اس کے چند گھنٹے بعد ہی کیا گیا جب ایک امریکی فوجی طیارہ 104 انڈین غیر قانونی تارکین وطن کو شمالی شہر امرتسر چھوڑ گیا۔ ان تارکین وطن کو ہتھکڑیاں اور زنجیریں پہنائی گئیں تھیں۔
یہ ملک بدری کی پرواز امریکہ میں غیر قانونی امیگریشن کے خلاف ڈونلڈ ٹرمپ کی سخت کارروائی کا حصہ تھی جس کے ذریعے وہ اپنے ایک اہم انتخابی وعدے کو پورا کر رہے ہیں۔
چار سے 46 سال کی عمر کے ان تارکین وطن کی واپسی کو انڈیا اور نریندر مودی کے لیے بڑی شرمندگی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو خود کو امریکہ کے نئے صدر سے ذاتی تعلقات رکھنے والا رہنما قرار دیتے ہیں۔
انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے پارلیمنٹ میں بتایا کہ امریکی حکام کے نزدیک ملک بدر کیے جانے والے افراد کو قابو میں رکھنے کے لیے ایسے اقدامات معمول کی بات ہیں، تاہم ان کے بقول اس پرواز میں خواتین اور بچوں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا گیا۔ لیکن واپس آنے والے تارکین وطن نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کو بھی زنجیروں میں جکڑا گیا۔
انڈین وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’ہم یقیناً امریکی حکومت کے ساتھ رابطے میں ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ملک بدر کیے جانے والے افراد کے ساتھ پرواز میں کسی بھی قسم کا ناروا سلوک نہ کیا جائے۔‘
بلومبرگ نیوز کے مطابق نریندر مودی کی حکومت پہلے ہی تقریباً 18 ہزار انڈین شہریوں کو امریکہ سے واپس لانے پر آمادگی ظاہر کر چکی ہے اور اس فیصلے کو نئی امریکی انتظامیہ کو خوش کرنے اور تجارتی جنگ سے بچنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
پیُو ریسرچ سینٹر کے تخمینے کے مطابق امریکہ میں سات لاکھ 25 ہزار غیر قانونی انڈین تارکین وطن موجود ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ انڈیا ’غیر قانونی امیگریشن کے معاملے پر درست قدم اٹھائے گا۔‘
دوسری طرف، انڈیا کو امید ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ قانونی امیگریشن کے راستے محفوظ رکھے گی، خاص طور پر طلبہ ویزوں اور ہنر مند مزدوروں کے لیے ایچ ون بی ویزوں کے حوالے سے، کیوں کہ خدشہ ہے کہ امریکہ انڈین شہریوں کے لیے ان ویزوں کی تعداد کم کر سکتا ہے۔
ایچ ون بی ویزا ہنر مند ملازمین کے لیے مخصوص ہے جو عام طور پر ٹیکنالوجی، صحت، انجینیئرنگ، اور مالیاتی شعبوں میں کام کرتے ہیں۔ 2023 میں جاری کیے گئے تین لاکھ 86 ہزار ایچ ون بی ویزوں میں سے تقریباً تین چوتھائی انڈین شہریوں کو دیے گئے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ ’بہت قابل اور ہنر مند افراد‘ کو امریکہ آتے دیکھنا پسند کرتے ہیں، چاہے اس میں یہ شامل ہو کہ وہ دوسرے لوگوں کو تربیت دیں اور ان کی مدد کریں جو ان کے برابر قابلیت نہیں رکھتے۔‘
لیکن نئی دہلی اب بھی امریکی صدر کے برکس، بڑی معاشی طاقتوں کے گروپ جس میں انڈیا اور چین بھی شامل ہیں، کے حوالے سے سخت مؤقف پر فکر مند ہے۔
ملن ویشنو، جو کارنیگی انڈاؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے جنوبی ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر ہیں، نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا: ’انڈیا کی مفاہمت پر مبنی حکمت عملی انوکھی نہیں، لیکن یہ بہت چالاکی سے اپنائی گئی ہے۔ چھوٹے اور نسبتاً کم اہم معاملات پر پہلے سے ہی رعایت دے کر، حکومتیں ٹرمپ کو فوری کامیابیاں دلوا سکتی ہیں، جب کہ خود زیادہ نقصان سے بچ سکتی ہیں۔
اپنے دوسرے دور صدارت میں ڈونلڈ ٹرمپ انڈیا سے مزید چاہ رہے ہیں۔ وہ نریندر مودی کو ’عظیم رہنما‘ کہہ چکے ہیں اور گذشتہ ہفتے انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک ’باہمی مفاد اور باہمی اعتماد پر مبنی شراکت داری کے لیے پرعزم ہیں۔‘
لیکن اس سے پہلے، ڈونلڈ ٹرمپ انڈیا پر غیر ضروری طور پر زیادہ تجارتی محصولات عائد کرنے کا الزام لگا چکے ہیں، یہاں تک کہ انہوں نے انڈیا کو ’ٹیرِف کنگ‘بھی کہا اور جوابی محصولات لگانے کی دھمکی دی۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق گذشتہ ہفتے نریندر مودی سے فون پر گفتگو کے دوران ٹرمپ نے اس بات پر زور دیا کہ ’منصفانہ دوطرفہ تجارتی تعلقات کی طرف بڑھنا ضروری ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈیا، اپنی طرف سے، اپنے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار کے ساتھ تجارتی جنگ سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔
انڈین وزارت تجارت نے حال ہی میں 1600 سی سی سے زیادہ انجن والی ہیوی بائیکس پر محصولات 50 فیصد سے کم کر کے 30 فیصد کر دیے، جب کہ چھوٹے ماڈلز پر 40 فیصد تک کمی کی گئی۔ یہ فیصلہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دیرینہ مطالبے کے مطابق کیا گیا تاکہ ہارلے ڈیوڈسن جیسی مہنگی موٹرسائیکلوں پر عائد محصولات کو کم کیا جا سکے۔
ٹرمپ نے اپنی دوسری مدتِ صدارت کا آغاز چین کے ساتھ تجارتی جنگ سے کیا۔ گذشتہ دنوں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی مصنوعات پر محصولات عائد کیے۔
امریکی صدر نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر برکس ممالک نے ڈالر کی متبادل کرنسی متعارف کرانے کی کوشش کی تو وہ ان پر سو فیصد محصولات عائد کر دیں گے۔
یہ توقع کی جا رہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ، نریندر مودی پر دباؤ ڈالیں گے کہ انڈیا مزید امریکی فوجی ساز و سامان خریدے۔ انڈیا دنیا کا سب سے بڑا دفاعی ساز و سامان درآمد کرنے والا ملک ہے۔
نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے ماہر معاشیات امتندو پالت کے مطابق، انڈیا کے لیے ٹرمپ کو خوش کرنے کی پالیسی کا ایک بڑا خطرہ یہ ہے کہ اس سے امریکہ کی مزید مطالبات کرنے کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے۔
انہوں نے بلومبرگ سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ٹرمپ کا طریقہ کار یہی ہے کہ اگر آپ ایک بار ان سے اتفاق کر لیں، تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ معاملہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔ وہ اگلی بار ایک اور بڑی قیمت کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ یہی مسئلہ ہے۔‘
© The Independent