فضائی حدود بند ہونے سے ملک کا کیا نقصان ہوتا ہے؟

سیف ایئر سپیس نامی بین الاقوامی ویب سائٹ نے پاکستان کی جانب سے انڈین جہازوں کے لیے بند کی جانے والی فضائی حدود کو لیول دو دیا ہے۔

ایک بچہ یکم فروری 2024 کو ممبئی کے چھترپتی شیواجی مہاراج بین الاقوامی ہوائی اڈے پر کھڑے ایئر انڈیا کے مسافر طیاروں کو دیکھ رہا ہے (روئٹرز)

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں 22 اپریل کو نامعلوم افراد کے سیاحوں پر حملے کے نتیجے میں دہلی کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کے ردعمل میں پاکستان نے انڈین ملکیتی یا لیز پر حاصل کیے گئے جہازوں پر پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔

پاکستان کے ایک اعلیٰ سطح سکیورٹی کمیٹی اجلاس میں دیگر فیصلوں کے علاوہ انڈیا کے طیاروں پر پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ 

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان نے اپنی فضائی حدود بند کی ہیں۔ اس سے قبل 2019 میں بھی پاکستان نے اپنی فضائی حدود بند کر دی تھیں۔

فضائی حدود بند کرنے کی وجہ سے جہاں انڈین ایئر لائنز کو 700 کروڑ انڈین روپے کا نقصان اٹھانا پڑا وہیں سفر کا دورانیہ بڑھا، صارفین کے لیے ٹکٹیں مہنگی ہوئیں، ایئر ٹریفک کنٹرولرز پر بوجھ بڑھا تھا۔

اس دوران بین الاقوامی ایئرلائنز کی پروازیں بھی متاثر ہوئی تھیں۔ جیسے امریکی کمپنی یونائیٹڈ ایئرلائنز نے فضائی حدود کی پابندیوں کا حوالہ دیتے ہوئے امریکہ سے دہلی اور ممبئی کے لیے اپنی پروازیں معطل کر دی تھیں۔

اسی طرح روس اور یوکرین کی جنگ کے آغاز میں یورپی یونین کے ممبر مملک نے روس کی ملکیت، روس میں رجسٹرڈ جہازوں کو لینڈ کرنے، ٹیک آف کرنے یا ٹرانزٹ کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ سوئٹزلینڈ، برطانیہ، کینیڈا، امریکہ اور دیگر ممالک نے بھی روسی جہازوں پر اس قسم کی پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کے جواب میں روس نے بھی اسی قسم کی پابندی عائد کرتے ہوئے اپنی فضائی حدود کو ان ممالک کے جہازوں کے لیے بند کردیا۔

سیف ایئر سپیس نامی بین الاقوامی ویب سائٹ نے پاکستان کی جانب سے انڈین جہازوں کے لیے بند کی جانے والی فضائی حدود کو لیول دو دیا ہے۔ یہ درجہ رسک یا خطرے کے حوالے سے نشاندہی کرتا ہے۔ لیول دو کا مطلب ہے کہ خطرہ ہے۔ لیول ایک کا مطلب ہے کہ فضائی حدود میں پرواز نہ کریں۔ اور لیول تین کا مطلب ہے کہ محتاط رہیں۔

اسی ویب سائٹ کے مطابق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے واقعے کے بعد پاکستان کی فضائی حدود میں پرائمری رسک کراچی اور لاہور کی فضا میں فوجی سرگرمیوں سے ہے اور خطرہ ہے کہ ایوی ایشن یعنی جہاز کو خطرہ ہو خاص طور پر لاہور کی فضا میں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی طرح رواں سال 31 مارچ کو اٹلی نے اطالوی جہازوں کو پاکستان کی فضائی حدود میں 25 ہزار فٹ سے کم بلندی پر پرواز نہ کرنے ایڈوائزری دی ہوئی ہے جو کہ اس سال 29 جون تک لاگو ہے۔

خطرہ کیا ہے؟

وہ ممالک جہاں پر کونفلکٹ چل رہا ہے وہاں پر سویلین جہازوں کو خطرہ رہتا ہے اور سب سے بڑا خطرہ یہ ہوتا ہے کہ زمین سے ہوا میں مار کرنے والے میزائل، فوجی ڈرونز، طیارہ شکن آٹلری اور فوجی دفاعی نظام کا نشانہ نہ بن جائیں۔

اصل خطرہ سویلین جہاز کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے کا نہیں ہوتا بلکہ سویلین جہاز کو فوجی جہاز سمجھ کر مار گرانے کا زیادہ ہوتا ہے۔  جیسے کہ 2017 میں ایم ایچ 17 کے ساتھ ہوا جب وہ مشرقی یوکرین کے اوپر پرواز کر رہا تھا اور غلط نشاندہی ہونے پر اس کو زمین سے ہوا میں مار کرنے والے میزائل سے مار گرایا گیا۔ اور دوسری جانب 2020 میں ایرانی ایئر ڈیفنس سسٹم نے یو آئی اے 752 کی غلط نشاندہی کی اور اس کو تہران میں مار گرایا۔

پاکستان کی جانب سے فضائی حدود بند کرنے کی وجہ سے اس بار بھی بھارتی ایئر لائنز کے سفر میں 70 سے 80 منٹ کا اضافہ ہو گا جس کے باعث نہ ان کو صرف مالی نقصان اٹھانا پڑے گا بلکہ سفر کا دورانیہ بڑھنے سمیت صارفین کے لیے ٹکٹیں مہنگی ہوں گی۔ ٹکٹیں مہنگی ہونے کی وجہ سے وہ ایئر لائنز جن کو پاکستانی فضائی حدود استعمال کرنے کی آزادی ہے وہ انڈین ایئر لائنز کے بزنس کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ