پاکستان نے امریکہ کو افغانستان میں فوجی اور انٹیلی جنس آپریشنز کے لیے اپنے فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دینے کے حوالے سے کسی بھی قسم کے معاہدے پر بات چیت کی رپورٹس کی تردید کی ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے ہفتے کو جاری ایک بیان میں بین الاقوامی میڈیا میں چھپنے والے خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان اور امریکہ کے مابین ایسے کسی معاہدے پر بات چیت نہیں ہو رہی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ پاکستان اور امریکہ کا علاقائی سلامتی اور انسداد دہشت گردی پر دیرینہ تعاون ہے اور دونوں کے درمیان باقاعدہ مشاورت جاری ہے۔
اس سے قبل 22 اکتوبر کو امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ افغانستان میں فوجی آپریشن کے لیے فضائی حدود کے استعمال پر امریکہ اور پاکستان باقاعدہ معاہدے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔
سی این این کے مطابق جو بائیڈن انتظامیہ نے امریکی اراکین کانگریس کو پاکستان کے ساتھ ہونے والے سمجھوتے سے گذشتہ روز آگاہ کر دیا تھا۔
رپورٹ میں تین ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان نے فضائی حدود کے استعمال کے بدلے امریکہ سے انسداد دہشتگردی کے لیے امداد کی فراہمی کے ایم او یو کا تقاضا کیا ہے اور بھارت سے تعلقات کے معاملے میں مدد کی بھی خواہش ظاہر کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سی این این ذرائع کا دعویٰ تھا کہ امریکہ سے پاکستان کے مذاکرات جاری ہیں اور ابھی سمجھوتے کو حتمی شکل نہیں دی گئی، اس میں تبدیلی بھی واقع ہوسکتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ امریکی فوج انٹیلی جنس جمع کرنے کے لیے فی الحال پاکستان کی فضائی حدود کو افغانستان تک پہنچنے کے لیے استعمال کرتی ہے، لیکن امریکہ کے افغانستان تک پہنچنے کے لیے ضروری فضائی حدود تک مسلسل رسائی کو یقینی بنانے کے لیے کوئی باضابطہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان موجود نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق: ’پاکستان کے راستے افغانستان جانے والی فضائی راہداری کا معاملہ مزید نازک ہو سکتا ہے اگر امریکی شہریوں اور ملک میں موجود دیگر افراد کو افغانستان سے نکالنے کے لیے امریکہ کابل میں پروازیں دوبارہ شروع کرتا ہے۔‘
سی این این کے ایک اور ماخذ نے بتایا کہ جب امریکی حکام نے پاکستان کا دورہ کیا تو ایک معاہدے پر تبادلہ خیال کیا گیا، لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ پاکستان کیا چاہتا ہے یا امریکہ اس کے بدلے میں کتنا دینا چاہتا ہے۔
اس میں کہا گیا کہ فی الحال کوئی باضابطہ معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے، امریکہ پاکستان کی طرف سے افغانستان کے راستے میں امریکی فوجی طیاروں اور ڈرونز کے داخلے سے انکار کرنے کا خطرہ مول لے رہا ہے۔‘