انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں 22 اپریل کو نامعلوم افراد کے سیاحوں پر حملے کے نتیجے میں دہلی کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کے ردعمل میں پاکستان نے انڈین ملکیتی یا لیز پر حاصل کیے گئے جہازوں پر اس (پاکستان) کی فضائی حدود استعمال کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
پاکستان کے ایک اعلٰی سطحی سکیورٹی کمیٹی اجلاس میں دیگر فیصلوں کے علاوہ انڈیا کے طیاروں پر پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
پاکستان سول ایوی ایشن کے ایک عہدیدار نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’انڈیا کے ملکیتی یا لیز پر حاصل کیے گئے طیاروں کے علاوہ انڈیا سے چلنے والی باقی ایئر لائنز پر پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے پر پابندی نہیں ہو گی۔ ‘
اس پابندی سے سب سے زیادہ متاثرہ انڈین ٹاٹا گروپ کی ایئر لائن ایئر انڈیا ہو گی، جو انڈیا سے دنیا کے مخلتف ممالک کے لیے پروازیں چلاتی ہے۔
ایئر انڈیا نے اس حوالے سے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ پاکستان کی جانب سے فضائی حدود کے استعمال کی پابندی کی وجہ سے امریکہ، لندن، یورپ اور مشرق وسطٰی کی پروازیں متاثر ہو سکتی ہیں۔
ایئر انڈیا کے مطابق، ’پاکستانی فضائی حدود کے استعمال پر پابندی کی وجہ سے پروازوں کو متبادل روٹ پر لانے کی وجہ سے پروازوں کے اوقات کار متاثر ہو سکتے ہیں، جس پر ہم معذرت خواہ ہیں۔‘
ایئر انڈیا کی پروازیں انڈیا کے دہلی، سری نگر، ممبئی اور دیگر ہوائی اڈوں سے امریکہ، یورپ، لندن اور مشرق وسطٰی کے ممالک کے لیے چلتی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اوپن سورس ڈیٹا کی مدد سے جاننے کی کوشش کی ہے کہ ایئر انڈیا کی کون سی پروازیں کتنے دورانیے کے لیے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرتی ہیں اور اب یہ پروازیں کون سا متبادل روٹ استعمال کریں گی۔
فلائٹس پاتھ نامی ویب سائٹ دنیا بھر میں پروازوں کے روٹس پر نظر رکھنے والا ادارہ ہے جو پروازوں کا یہ ڈیٹا بھی اکھٹا کرتا ہے کہ کونسی پرواز کس ملک کی فضائی حدود کتنے وقت کے لیے استعمال کرتی ہے۔
اس ویب سائٹ پر ایئر انڈیا کی پروازوں کی جانچ سے پتہ چلا کہ یہ انڈین ایئر لائن کی امریکہ، یورپ، لندن اور مشرق وسطیٰ جانے والی پروازیں 28 منٹ سے ایک گھنٹے کے درمیان کا وقت پاکستان کی فضائی حدود میں گزارتی ہیں۔
انڈین دارالحکومت دہلی سے لندن جانے والی ایئر انڈیا کی پرواز کراچی کے ساحل کو عبور کر کے بلوچستان میں مکران کے علاقوں سے گزرتے ہوئے اپنی منزل کی طرف جاتی ہے اور پاکستانی حدود استعمال کرنے کا اس کا دورانیہ 38 منٹ ہوتا ہے۔
ایئر انڈیا کی ویب سائٹ کے مطابق انڈیا سے روزانہ اس کی اوسطاً 19 پروازیں چلتی ہیں، جن کا مجموعی دورانیہ تقریباً 16 گھنٹے ہے۔
ایئر انڈیا ہی کی دہلی سے نیویارک اور سان فرانسیسکو کے لیے پرواز بھی کراچی مکران کا روٹ استعمال کر کے پاکستانی حدود میں 48 منٹ گزار کر نیو یارک کی طرف جاتی ہے۔
انڈیا سے سان فرانسیسکو کے لیے اوسطاً 16 پروازیں چلتی ہیں جن کا دورانیہ تقریباً 12 گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے جبکہ نیویارک کے لیے اوسطاً کونیکٹیڈ پروازیں 19 ہیں۔
ایئر انڈیا کی انڈیا سے پیرس کی پرواز بھی یہی روٹ استعمال کرتی ہے اور پاکستانی حدود میں 28 منٹ کا دورانیہ گزار کر آگے بڑھتی ہے۔
انڈیا سے جرمنی جانے والی پرواز بھی کراچی کا ہی روٹ استعمال کر کے پاکستانی حدود میں 35 منٹ تک گزارتی ہے۔
فلائٹس پاتھ نامی ویب سائٹ پر اب انہیں روٹس کے ساتھ تازہ ترین اپ ڈیٹ لگائی گئی ہے جس کے مطابق پاکستان کی جانب سے فضائی حدود استعمال کرنے پر پابندی سے ایئر انڈیا کی پروازیں متاثر ہو سکتی ہیں۔
متبادل روٹ انڈین طیاروں کے لیے کتنا مہنگا پڑے گا؟
ایئر انڈیا اور دیگر انڈیا کی ملکیتی ایئر لائنز اب پاکستان کی فضائی حدود کے علاوہ متبادل روٹ کا استعمال کریں گی۔
ایئر انڈیا کے علاوہ انڈیا کی ملکیتی ایئر لائنز جیسے سپیش جٹ اور انڈیگو نے اپنے مسافروں کے لیے ایڈوائزی جاری کر کے بتایا ہے کہ پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے پر پابندی سے متبادل روٹ استعمال سے فیول کا خرچہ بڑھ سکتا ہے۔
کرایوں میں اضافے کے حوالے سے انڈیا کی اندرون ملک چلنے والی ایئرلائن سپائس جٹ کے ترجمان نے انڈیا کے اخبار فنانشل ایکسپریس کو بتایا کہ متبادل روٹ لمبا ہوتا ہے جس سے فیول کا خرچہ زیادہ ہوتا ہے جس سے انڈیا سے متحدہ عرب امارات کی پروازیں متاثر ہوں گی۔
اب ان پروازوں کے لیے متبادل روٹ کو نسا ہے اور یہ کتنا لمبا پڑتا ہے، اس حوالے سے ایوی ایشن کے امور پر نظر رکھنے والے صحافی طاہر عمران میاں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انڈیا کی بیشتر ایئر لائنز انڈیا سے لاہور کی فضائی حدود میں داخل ہوتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طاہر عمران کے مطابق انڈین ایئر لائنز لاہور سے راولپنڈی تک کا سیدھا راستہ استعمال کرتے ہوئے جہاز بائیں مڑ کر چترال سے ہوتے ہوئے تاجسکتان کی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہیں۔
طاہر عمران نے بتایا کہ ’اب فضائی حدود پر پابندی کی وجہ سے دہلی سے پروازیں احمد آباد یعنی بحیرہ عرب کی جانب جائیں گی اور وہاں سے اومان کی فضائی حدود میں داخل ہو کر گلف پہنچے گی اور پرواز کے دورانیے میں تین گھنٹے تک اضافہ ہو سکتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انڈیا کی ایئر لائنز کے پاس دوسرا متبادل روٹ انڈیا سے امریکہ اور یورپ جانے والی پروازیں چین کی فضائی حدود میں داخلے کے بعد، وہاں سے وسطی ایشیا ممالک میں داخل ہو کر آگے جائیں گی۔
کراچی پر سے گزرنے والے انڈیا کے طیاروں کے حوالے سے طاہر عمران نے بتایا کہ انڈیا کی مختلف ایئر لائنز ایران کی فضائی حدود استعمال کرتی ہیں اور وہ لاہور سے راولپنڈی اور پھر پشاور اور نارتھ کی طرف جا کر آگے جاتی ہیں، جو اب انڈیا کے طیاروں کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔
فضائی حدود کے استعمال کا معاوضہ
دنیا میں ہر ملک اس کی فضائی حدود کے استعمال کا جہاز کی مالک کمپنی سے ایک مقررہ فیس وصول کرتا ہے، جسے ایئر نیوی گیشن فیسیلیٹی چارجز کہا جاتا ہے۔
جہاز کا وزن (ٹنوں میں) | معاوضہ (روپوں میں) |
40 تک | 58000 |
41 سے 120 | 76000 |
121 سے 160 | 87000 |
161 سے 250 | تقریباً ایک لاکھ |
251 سے زیادہ |
ایک لاکھ 16 ہزار |
پاکستان سول ایوی سیشن اتھارٹی مختلف ایئر لائنز سے یہ چارجز جہاز کی اڑان بھرنے کے وقت وزن کے حساب سے وصول کرتی ہے۔ اس معاوضے کی تفصیلات مندرجہ بالا جدول میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
پابندی انڈین ایئر لائنز کو کتنی بھاری پڑ سکتی ہے؟
بیورو اف ریسرچ ان انڈسٹری اینڈ اکنامکس نامی ادارے نے 2019 میں بالاکوٹ میں فضائی حملے کے بعد پاکستان کے فضائی حدود کے استعمال پر پابندی کی وجہ سے انڈیا کے ایئر لائنز کو نقصان کا تخیمنہ لگایا تھا۔
اس ادارے کے رپورٹ کے مطابق فروری سے جولائی 2019 کے دوران انڈیا کی ایئر لائنز کو پاکستان کی فضائی حدود کے استعمال پر پابندی کی وجہ سے تقریباً آٹھ کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا تھا جبکہ پاکستانی ایئر لائنز کے نقصان کا تخمینہ پانچ کروڑ ڈالر سے زیادہ لگایا گیا تھا۔
بوئنگ 747 کا اندازہ لگایا جائےتو رپورٹ کے مطابق یہ طیارہ 10 گھنٹے پرواز کے دوران ایک لاکھ 50 ہزار لٹر تک فیول خرچ کرتا ہے۔
اب اگر پاکستان کی فضائی حدود کے استعمال پر پابندی سے انڈیا کی ایئر لائن کو تین گھنٹے زیادہ پرواز کرنے کی صورت میں تقریباً 40 ہزار لیٹر فیول زیادہ صرف کرنا پڑے گا، جس سے کرایوں میں بھی اضافہ ہو گا۔