کیا پاکستان انڈیا کشیدگی سے معیشت متاثر ہو سکتی ہے؟

پاکستان اور انڈیا کے درمیان تناؤ بڑھ چکا ہے۔ سیاسی اور سفارتی محاذ پر شدید جنگ جاری ہے لیکن سوال اٹھتا ہے: ’کیا اس کشیدگی کا اثر معیشت پر بھی پڑ سکتا ہے؟‘

20 فروری 2019 کی اس تصویر مٰں ایک پاکستانی ڈرائیور واہگہ بارڈر کے قریب سڑک کے ساتھ دوسرے ٹرکوں کے ساتھ کھڑے ایک لدے ہوئے ٹرک کے بمپر پر بیٹھا دیکھا جا سکتا ہے (عارف علی / اے ایف پی)

پاکستان اور انڈیا کے درمیان تناؤ بڑھ چکا ہے۔ سیاسی اور سفارتی محاذ پر شدید جنگ جاری ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کشیدگی کا اثر معیشت پر بھی پڑ سکتا ہے یا نہیں؟

لاہور چمبر آف کانرس اینڈ انڈسٹری کے صدر میاں ابوزر شاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاک انڈیا رسمی تجارت اگست 2019 سے بند ہے۔ کچھ ادویات کا خام مال انسانی بنیادوں پر پاکستان درآمد کیا جاتا ہے جن کی مالیت انتہائی کم ہے، لیکن غیر رسمی تجارت کا حجم تقریباً دو ارب ڈالرز سے زیادہ ہے جو رسمی تجارت کی نسبت تقریباً پانچ گنا زیادہ ہے۔ یہ تجارت متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک کے ذریعے ہوتی ہے۔

’ایک اندازے کے مطابق انڈیا پاکستان کو تقریباً پونے دوارب ڈالرز کی غیر رسمی برآمدات کرتا ہے اور ان کا بڑا حصہ ادویات پر مشتمل ہے اور پاکستان سے انڈیا  غیر رسمی تجارت میں کھجوریں، نمک وغیرہ جاتا ہے اور اس کی مالیت بہت کم ہے۔ 2018-19 کے نو ماہ میں انڈیا کی پاکستان کو رسمی برآمدات تقریباً ایک ارب 60 کروڑ ڈالرز تھیں اور پاکستان کی برآمدات تقریباً 44 کروڑ ڈالرز تھیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کی رسمی تجارت کا حجم بہت کم رہ گیا ہے۔ غیر رسمی تجارت بند ہونے سے زیادہ نقصان انڈیا کا ہے۔ پاکستان کو ادویات کے خام مال میں وقتی طور پر دقت آ سکتی ہے لیکن اس کا متبادل بآسانی تلاش کیا جا سکتا ہے۔‘

ایئر لائن اکنامکس کے پروفیسر اور سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر ایئر ٹرانسپورٹ محمد اسفر ملک نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بین الاقوامی قوانین کے مطابق کسی ملک کے لیے ایئر سپیس بند کرنا جرم ہے۔ صرف جنگی حالات میں ایئر سپیس بند کی جا سکتی ہے، وہ بھی تمام ممالک کے لیے کرنا ہوتی ہے۔ انڈیا کے ساتھ تناؤ جاری رہتا ہے۔ وہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اس لیے پاکستان بھی ان کے لیے ایئر سپیس بند کر دیتا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’پاکستان نہ صرف زمینی بلکہ فضائی راستوں کے لیے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ انڈیا سے اڑنے والی پروازوں کو امریکہ، یورپ، برطانیہ، متحدہ عرب امارات، اور جنوبی ایشائی ممالک میں جانے کے لیے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنا پڑتی ہے۔ اگر پاکستان کی فضائی حدود بند ہو جائیں تو انڈیا متبادل فضائی راستے استعمال کر سکتا ہے لیکن وہ راستے طویل اور مہنگے ہیں۔

’2019 میں پاکستان نے انڈیا کے لیے تقریباً پانچ ماہ فضائی حدود بند رکھی تھیں جس سے انڈیا کو تقریباً آٹھ کروڑ ڈالرز کا نقصان ہوا تھا اور پاکستان کو ایئرلائن چارجز نہ ملنے کی وجہ سے تقریباً دس کروڑ ڈالرز کا نقصان ہوا تھا۔ پاکستان کو زیادہ نقصان اس لیے ہوا تھا کیونکہ پاکستان نے تمام ممالک کی ایئر لائنز پر انڈیا کے لیے پابندی لگا دی تھی۔ اس مرتبہ صرف انڈین ایئر لائنز پر پابندی لگائی گئی ہے جس سے پاکستان کو بہت کم نقصان ہونے کے امکانات ہیں۔‘

اسفر ملک نے مزید کہا کہ ’اگر جہاز ایک گھنٹہ پرواز کرے تو تقریباً پانچ سے سات ہزار ڈالرز کا فیول خرچ ہوتا ہے۔ پاکستان کی فضائی حدود بند ہونے سے دہلی سے متحدہ عرب امارت جانے والی فلائٹ پہلے ممبئ جائے گی اور وہاں سے بحیرہ عرب سے ہوتی ہوئی اپنا روٹ لے گی، جو کہ تقریباً ڈیڑھ سے دو گھنٹے اضافی پرواز ہے۔

ایک اندازے کے مطابق ایک فلائٹ سے انڈیا کو تقریباً 10 ہزار ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔ تقریباً 80 سے 100 فلائٹس اوسطا پاکستان سے روز گزرتی ہیں۔ اس حساب سے اوسطاً 10 لاکھ ڈالرز کا روزانہ نقصان ہو سکتا ہے۔ اگر ایک ماہ تک پابندی رہتی ہے تو تقریباً تین کروڑ ڈالرز کا نقصان ہو سکتا ہے۔ جبکہ پاکستان کو ایک فلائٹ کا تقریباً ایک ہزار ڈالرز تک نقصان پہنچ سکتا ہے۔ روزانہ کا نقصان ایک لاکھ ڈالرز اور ایک ماہ کا نقصان تقریباً 30 لاکھ ڈالرز ہو سکتا ہے۔ انڈیا کا نقصان تقریباً نو گنا زیادہ ہو سکتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’صرف انڈین ایئر لائنز پر پابندی لگی ہے۔ دیگر ممالک کی ایئر لائنز خصوصی طور پر گلف ایئر لائنز کو متبادل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے جس سے انڈین ایئر لائنز کا نقصان مزید بڑھ سکتا ہے اور گلف ایئر لائنز زیادہ منافع کما سکتی ہیں۔ انڈیا میں ایئر لائنز لابی بہت مضبوط ہے۔ مودی سرکار زیادہ دیر تک یہ دباؤ برداشت نہیں کر سکے گی۔‘

سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اگر دو ایٹمی طاقتوں میں کشیدگی بڑھی تو معاشی اثرات ہمسایہ ممالک پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ انڈیا ابھرتی ہوئی معیشت ہے۔ پاکستان کے ساتھ کشیدگی میں سب سے زیادہ نقصان انڈیا کا ہی ہو گا۔ بیرونی سرمایہ کاری رک سکتی ہے اور بےیقینی کی فضا طوالت اختیار کر سکتی ہے۔

’پاکستان اور انڈیا کا زرعی اجناس اور گوشت کی برآمدات میں بڑا حصہ ہے۔ دنیا کو گوشت اور زرعی اجناس کی سپلائی میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے جو کہ ایک بڑا معاشی چیلنج ثابت ہو سکتی ہے۔ زیادہ امکانات ہیں کہ دونوں ممالک اس نحج پر نہیں جا سکتے کہ ہمسایہ ممالک کو مداخلت کرنا پڑے۔ انڈیا صرف عوامی ہمدردی لینا چاہتا ہے۔‘

ایگریکلچر انجینیئرنگ ڈپارٹمنٹ کے چئیرمین اور آبی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر محمد شعیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی میں پاکستان کا پانی فوری بند کرنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ پاکستان کا پانی فوری روکنے کے لیے چناب، جہلم اور سندھ پر ڈیمز بنانا ضروری ہیں۔ ڈیم بنانے کے لیے 25 ارب ڈالر اور 15 سال چاہیے۔ ابھی تک مطلوبہ سٹرکچر تیار نہیں ہو سکے ہیں البتہ ستلج، بیاس اور راوی میں اضافی پانی چھوڑا جا سکتا ہے جس سے پاکستان میں سیلاب کی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے اور لاکھوں ایکڑ پر پھیلی فصلیں متاثر ہو سکتی ہیں۔ پاکستان زرعی ملک ہے۔ 70 فیصد برآمدات زراعت سے جڑی ہیں۔ اگر حالات کشیدہ رہے تو پاکستانی کسان اور برآمدات کو زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ