پوری دنیا میں ماحولیات کا تحفظ کیوں ممکن نہیں ہو پا رہا؟

وہ نسل جو کبھی سکول سے چھٹی کر کے ماحولیات کے لیے احتجاج کرتی تھی، اب ایک مکان خریدنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ بہت سے نوجوان اب ایک صاف ماحول اور مالی مشکلات کے درمیان پھنس چکے ہیں۔

شہر لاہور میں آٹھ نومبر 2021 کو اقوام متحدہ کی کلائمیٹ چینج کانفرنس کے موقع پر ماحولیاتی کارکن مظاہرہ کر رہے ہیں (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

میں نے سویڈش ماحولیاتی کارکن گریٹا تھن برگ سے پہلی بار 2016 میں ملاقات کی جب وہ ایک شرمیلی مگر پُرعزم سکول کی طالبہ تھیں جنہوں نے ہر جمعے کو ماحولیاتی اقدامات کے حق میں احتجاج کے ذریعے ذاتی مہم شروع کر رکھی تھی۔

یہ ذاتی جذبہ جلد ہی ایک عالمی تحریک میں بدل گیا۔ 2019 تک دنیا بھر میں لاکھوں نوجوان اپنے والدین کو شرم دلا رہے تھے، وہ سکولوں، ٹاؤن ہالز اور حکومتی دفاتر کے باہر احتجاج کر رہے تھے۔ اربوں ڈالر مالیت کی کمپنیوں کے خلاف قانونی مقدمات نے امید کی نئی کرن پیدا کی اور ’گرین نیو ڈیل‘ جیسی تحریک کا دور تقریباً ناگزیر محسوس ہونے لگا۔

پھر اس تحریک کو پہلا جھٹکا کرونا وبا کے دوران لگا۔ اس وبا نے دنیا کو بکھیر دیا اور ماحولیاتی احتجاجات کو سڑکوں سے نکال کر زوم تک محدود کر دیا۔ لیکن اس کے باوجود بھی تحریک کی طاقت انتخابی سیاست میں گونجتی رہی۔ عالمی سود کی شرح تاریخی حد تک گر گئیں لہٰذا ماحولیاتی اقدامات کے حامی حکومتیں امریکہ، جرمنی، آسٹریلیا، برازیل اور جنوبی کوریا جیسے ممالک میں ابھریں اور موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ عالمی سیاسی منظرنامے پر نمایاں رہا۔

لیکن جو واقعہ اس تحریک کے لیے فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا، وہ یوکرین پر حملہ تھا۔ پہلے گیس، پھر کوئلہ اور تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں اور اس نے عالمی سیاسی ہواؤں کا رخ بھی بدل دیا۔ اگر توانائی کا بحران پہلا دھچکا تھا تو افراط زر اس پر دوسرا کاری ضرب ثابت ہوئی رہی سہی کسر اس سال ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی نے پوری کر دی جنہوں نے اوول آفس کا چارج لیتے ہی اجتماعی امید کے چراغ پر پھونک مار دی۔

اس پس منظر میں یہ یقین کرنا آسان ہے کہ عوام اب ماحولیاتی اقدام سے پیچھے ہٹ چکے ہیں۔ لیکن حالیہ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہ خیال غلط ہو سکتا ہے اور لیکن نئی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ یہ سوچ غلط ہو سکتی ہے اور ہم شاید اندازہ نہیں لگا پا رہے کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ دل سے چاہتے ہیں کہ زمین کو آلودگی سے بچانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

جب محققین نے دنیا بھر میں ایک لاکھ 30 ہزار افراد کا سروے کیا تو معلوم ہوا کہ 89 فیصد لوگ اب بھی چاہتے ہیں کہ سیاست دان موسمیاتی تبدیلی کے خلاف زیادہ اقدام کریں اور یہاں تک کہ دو تہائی لوگ اس کے لیے مالی مدد دینے کو بھی تیار ہیں۔ 125 ملکوں میں جب لوگوں سے پوچھا گیا، تو ہر جگہ لوگوں نے یہ غلط اندازہ لگایا کہ دوسرے لوگ ماحولیاتی کام کو کتنا ضروری سمجھتے ہیں۔

ایسا ہی ایک خاموش اکثریتی رجحان کاروباری دنیا میں بھی موجود ہو سکتا ہے۔ اگرچہ چند بڑی کمپنیاں اس سال ’ماحولیاتی اہداف‘ سے پیچھے ہٹنے کا اعلان کر رہی ہیں لیکن اکثریت اب بھی خاموشی سے اس مقصد سے وابستہ دکھائی دیتی ہے۔

رواں ہفتے 1,500 عالمی ایگزیکٹوز کے سروے سے معلوم ہوا کہ 97 فیصد کاروباری رہنما قابل تجدید توانائی پر فوری منتقلی کی حمایت کرتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ان میں سے نصف کمپنیاں اب اپنی سپلائی چینز کو ایسی مارکیٹوں میں منتقل کرنے پر غور کر رہی ہیں جہاں قابل تجدید توانائی تک بہتر رسائی ہو۔

اگرچہ اس سروے میں براہ راست فوسل فیول سے منسلک کمپنیاں شامل نہیں تھیں لیکن یہ واضح کرتا ہے کہ زیادہ تر کمپنیاں ماحول کے لیے مثبت قدم اٹھانا چاہتی ہیں لیکن چند طاقتور کمپنیاں جو صرف اپنا فائدہ دیکھتی ہیں، سب کو پیچھے روک رہی ہیں۔

اب کمپنیوں کو یہ پتہ چل چکا ہے کہ صرف مستقبل کے منافع خطرے میں نہیں ہیں، بلکہ ماضی میں کی گئی آلودگی نے پہلے ہی بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے۔

رواں ہفتے کی ایک تحقیق کے مطابق اگر دنیا کی 111 سب سے بڑی آلودگی پھیلانے والی کمپنیوں کی ماضی کی آلودگی کی وجہ سے دنیا کا درجہ حرارت نہ بڑھتا تو 2020 میں عالمی معیشت میں مزید 28 ٹریلین ڈالر آسکتے تھے۔

یہاں تک کہ امریکہ میں بھی، جہاں ماحول دوست ٹیکنالوجہ کا زور بظاہر مدھم پڑ گیا ہے، مارچ میں ایک رائے شماری نے ظاہر کیا کہ دو تہائی امریکی صاف توانائی کی منتقلی کی حمایت کرتے ہیں تاہم امریکی دیہی علاقوں میں، جو فوسل فیول سے منسلک ہیں، وہاں اس کی کم حمایت کی جا سکتی ہے۔ یہی پیٹرن برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے ممالک میں بھی دیکھا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ سچ ہے کہ مہنگائی کے بحران نے عوامی رویوں کو تبدیل کر دیا ہے۔ جب ماحولیاتی پالیسیوں کی قیمتیں زیادہ نظر آنے لگتی ہیں، مثلاً بجلی کے بلوں میں اضافے کے ذریعے، تو لوگوں کی حمایت کم ہو جاتی ہے۔ لوگ اب بھی اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھتے ہیں مگر اس کی اقتصادی لاگت کے بارے میں زیادہ حساس ہو چکے ہیں۔

نوجوان نسلوں میں یہ دباؤ اور بھی شدید ہے۔

بڑے شہروں میں وہ نسل جو کبھی سکول سے چھٹی کر کے ماحولیاتی مارچ کرتی تھی، اب ایک گھر خریدنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ بہت سے نوجوان اب ایک مستحکم آب و ہوا کے خواب اور فوری زندگی کی مالی مشکلات کے درمیان پھنس چکے ہیں۔

اور یہی ماحولیاتی بحران کا نیا چہرہ ہے۔ کلین ٹیکنالوجی کے انقلاب کے طویل مدتی فوائد واضح ہیں لیکن اگر حکومتیں قلیل مدتی بچت اور پائیدار روزگار فراہم نہ کر سکیں تو وہ اگلے انتخابات تک بھی نہیں قائم رہ پائیں گی۔

ہم سب کے لیے چیلنج یہی ہے کہ ایسا مستقبل بنائیں جہاں دونوں باتیں ممکن ہو پائیں لیکن قلیل مدت میں ہمیں ایسی سیاسی حکمت عملی اور توانائی کی بچت کے ٹھوس طریقے تلاش کرنا ہوں گے جو اس بدلتے ہوئے سیاسی منظرنامے کے دونوں پہلوؤں کو متوازن رکھ سکیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر