ہمیں اب بھی وہ توانائی اور امید یاد ہے جو ہم نے 2016 میں مراکش میں ہونے والے موسمیاتی مذاکرات میں شرکت کے لیے سفر کے دوران محسوس کی تھی۔ یہ پیرس معاہدے کے حقیقت بننے کے بعد پہلا بڑا اجلاس تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ موسمیاتی سفارت کاری واقعی دنیا کو بہتر بنا سکتی ہے۔
پھر کانفرنس کے دوسرے دن سب کچھ بدل گیا۔ مجھے یاد ہے کہ میں پرسکون اور بے فکری کی نیند سویا لیکن صبح پانچ بجے جاگ کر یہ خبر دیکھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر بن گئے ہیں۔ ایسا لگا جیسے سب کچھ بدل گیا ہو۔ صبح پانچ بج کر ایک منٹ پر آنسو بہنے شروع ہوئے اور ہماری اجتماعی امید بے چینی اور خوف میں بدل گئی۔
کوپ 22 اچانک دو ہفتے طویل ایک ایسی ڈرامائی صورت حال میں تبدیل ہو گیا، جیسے ’دی واکنگ ڈیڈ‘ سیریز کو حقیقت میں دیکھ رہے ہوں۔ اس تجربے نے یہ ظاہر کیا کہ امریکی قیادت میں تبدیلی کس طرح عالمی سطح پر اثر ڈال سکتی ہے۔ اور اب کوپ 29 کے موقعے پر وہی سایہ باکو سٹیڈیم کے ہالز میں منڈلا رہا ہے۔
2016 میں کسی کو واقعی نہیں معلوم تھا کہ ٹرمپ کی صدارت کیا لے کر آئے گی۔ لیکن بہت سے لوگوں کو خدشہ تھا کہ بڑی محنت سے کیا گیا پیرس معاہدہ، وہ معاہدہ جس نے تمام ممالک کو ایک ہی فریم ورک کے تحت اکٹھا کیا، اب ناکامی کا شکار ہو سکتا ہے۔
آج ہم شاید ایک اور بڑی تبدیلی کے دہانے پر ہیں، جیسا کہ دنیا کے کچھ اعلیٰ ترین سفارت کاروں نے ایک کھلے خط میں اشارہ دیا ہے۔ اور اگرچہ یہ سوال شاید ابھی قبل از وقت ہو لیکن یہ مناسب ہے کہ پوچھا جائے کہ آیا موجودہ موسمیاتی سفارت کاری جاری رہ پائے گی یا اس کا جاری رہنا ضروری بھی ہے یا نہیں۔
ٹرمپ واحد تبدیلی نہیں ہیں جن کا دنیا کو سامنا ہے۔ ارجنٹائن کے موسمیاتی تبدیلی کے منکر صدر، ہیویئر میلے، پہلے ہی کوپ 29 سے اپنی نمائندہ ٹیم واپس بلا چکے ہیں۔
آئندہ سال جرمنی، کینیڈا اور میرے اپنے ملک آسٹریلیا میں اہم موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی پالیسی کی بنیاد پر اہم انتخابات ہونے جا رہے ہیں، جو تاریخی آلودگی پیدا کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ممالک میں سیاسی راستوں کو مکمل طور پر بدل سکتے ہیں۔
اگر ایسے رہنما جیسے کہ وکٹر اوربان یا جارجیا میلونی محسوس کریں کہ حالات ان کے حق میں جا رہے ہیں، تو ہم دائیں بازو کی حکومتوں کو موسمیاتی تبدیلی سے مکمل طور پر پیچھے ہٹتے دیکھ سکتے ہیں۔
یہ یقینی طور پر ان ممالک کو، جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں، یہ سوچنے پر مجبور کر سکتا ہے کہ آیا یہ عمل یا وسیع تر موسمیاتی مذاکرات ان کے لیے سود مند ہیں بھی یا نہیں، جیسا کہ پاپوا نیو گنی پہلے ہی سوچ رہا ہے۔
تاہم یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ عالمی موسمیاتی سفارت کاری، تاریخ کی طرح، صرف مغرب سے شروع یا ختم نہیں ہوتی۔ موسمیاتی سفارت کاری میں کچھ اہم ترین کامیابیاں ان مقامات سے آئی ہیں جنہیں اکثر ’غیر متوقع‘سمجھا جاتا ہے۔
چاہے وہ 2011 میں جنوبی افریقہ کی قیادت ہو، جہاں پیرس معاہدے کی بنیاد رکھی گئی، یا 1997 میں جاپان کی قیادت ہو، جب کیوٹو پروٹوکول پر دستخط کیے گئے، جو پہلی بار امیر ممالک کو کاربن کا اخراج کم کرنے پر مجبور کرتا تھا۔
دنیا کے ’بہترین کوپ اجلاس‘ شاذ و نادر ہی مغرب میں ہوئے اور اصل طاقت اور قیادت ان لوگوں نے دکھائی جو دوسروں کو ساتھ جوڑنے اور مسائل حل کرنے والے تھے، نہ کہ وہ لوگ جو پرتعیش کشتیوں پر اپنی دولت کی نمائش کرتے ہیں۔
آنے والے برسوں میں ابھرتی ہوئی معیشتیں عالمی توانائی کے انقلاب سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتی ہیں اور شاید سب سے زیادہ طاقت بھی حاصل کر سکتی ہیں۔’ بیسک ‘ممالک کا گروپ – برازیل، جنوبی افریقہ، انڈیا اور چین اور اس کے ساتھ ساتھ انڈونیشیا، ترکی، میکسیکو، کولمبیا اور نائجیریا جیسے ممالک بھی روائتی ایندھن استعمال کرنے والی اپنی صنعتوں کو فوری طور پر ترک نہیں کریں گے۔
لیکن یہ ممالک توانائی کے علاقائی انقلاب کی قیادت کریں گے اور نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ عالمی سطح پر بھی تجارتی اور باہمی تعاون کے ذریعے ماحول کے کے لیے نقصان دہ گیسوں کے اخراج میں کمی لا سکتے ہیں، اور وہ بھی اس سے کہیں زیادہ مؤثر انداز میں جتنا مغرب کر سکتا ہے۔ قابل تجدید توانائی کو تین گنا بڑھانے، توانائی کی صلاحیت کو دگنا کرنے اور روائتی ایندھن سے دور جانے کی کامیابی کی کنجی اب حقیقتاً انہی کے ہاتھ میں ہے۔
اگرچہ مغرب کی جانب سے موسمیاتی مالی اعانت کے وعدوں سے پیچھے ہٹنے پر مایوسی جائز ہے لیکن طاقت کے عالمی مراکز کے پاس پیرس معاہدے کی بنیاد پر آگے بڑھنے اور اسے نئی قیادت کے تحت دوبارہ تشکیل دینے کا موقع ہے۔
اگر یہ کوپ اگلے ہفتے میں کوئی بڑی تبدیلی نہ لا سکا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ موسمیاتی سفارت کاری یا یہ عمل ختم ہو گیا۔
اگلے سال برازیل میں ہونے والا موسمیاتی اجلاس اس ضمن میں آزمائشی میدان بن سکتا ہے۔
اگرچہ لاطینی امریکی رہنماؤں جیسے سوزانہ محمد اور مارینا سلوا کو سیاسی تبدیلیوں کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن انہیں نہ تو چینی صدر کے ٹویٹس کی پروا ہوگی اور نہ ہی میلے کے تنقیدی جملوں کی۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ نئی نسل کے رہنماؤں نے دائیں بازو کے طاقتور شکوک و شبہات کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہو۔ 2001 میں موسمیاتی دنیا نے یہ ثابت کیا کہ وہ جارج ڈبلیو بش کی کیوٹو پروٹوکول کو ناکام کرنے کی کوشش کو روکنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اس وقت جاپان نے مضبوط قیادت کے ذریعے اس عمل کو مستحکم کیا۔
بعد میں جب آسٹریلیا اور پھر کینیڈا نے دنیا کو بتایا کہ وہ کیوٹو کے اصولوں پر عمل نہیں کریں گے تو اس عمل میں کچھ وقت کے لیے جھول آیا اور کئی سال تک بہت سے لوگوں نے اس پر سوال اٹھائے۔ لیکن امید اور سفارتی عزم کی مقناطیسی طاقت نے ایک نیا راستہ ڈھونڈ لیا۔
یہ سفر سیدھا سادہ نہیں ہوگا۔ اگرچہ قابل تجدید توانائی سرمایہ کاری اور بجلی پیدا کرنے کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے، لیکن اس سال کا بڑا موسمیاتی ہدف مالیاتی ہے، اور یہ آسان نہیں، خاص طور پر مشکل حالات میں۔
جب مہنگائی کا بحران عالمی مزدور طبقے کی فکر بن جائے تو جمہوری رہنماؤں کے لیے ملکی بجٹ کو موسمیاتی اہداف کے لیے مختص کرنا مشکل ہو جاتا ہے حالاں کہ موسمیاتی آفات کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ پھر بھی موسمیاتی انصاف اس عمل کا بوجھ اور موسمیاتی مالی اعانت ماضی اور حال کے گناہوں کی قیمت۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگر وسیع پیمانے پر موسمیاتی مالی اعانت فراہم نہ کی گئی تو مہنگائی کا بحران اربوں بےگناہ لوگوں کے لیے ہولناک شکل اختیار کر لے گا۔ اس لیے اگلے چند دنوں اور آنے والے برسوں میں باہمی اتفاق رائے بے حد اہم ہوگا۔ اور سچ کہوں تو، میں نہیں جانتا کہ وہ اتفاق کہاں اور کیسے ممکن ہوگا۔
لیکن میں نے اس عمل کے سب سے طاقتور لمحات دیکھے ہیں۔ میں نے وہ اجتماعی حیرت محسوس کی جو رات تین بجے اس وقت سامنے آئی وینزویلا کی مذاکرات کار کلاڈیا سالرنو نے اپنے جوتے اتارنے کے بعد میز پر ننگے پاؤں کھڑے ہو کر یہ مطالبہ کیا کہ کمزور ملکوں کو وہ اذیت نہیں سہنی چاہیے جو انہیں سہنی پڑتی ہے۔ یہ واقعہ ڈربن میں پیش آیا۔
میں نے فلپائن کے یب سانو کو قطر میں کوپ 19 کے دوران کمرے میں پائی جانے والی دنیا کی سب سے مایوسی کو زیادہ ہمدردی کے آنسوؤں میں تبدیل کرتے ہوئے دیکھا۔
میں نے مارشل آئی لینڈز کے ٹونی ڈی بروم کو دیکھا جنہوں ایک سو ممالک کے مضبوط گروپ کی قیادت کرتے ہوئے پیرس میں رات گئے ہونے والے کے اجلاس میں شامل ہو کر اعلیٰ اہداف کے حصول کے لیے اتحاد کے قیام کا راستہ ہموار کیا۔
تو کیا موسمیاتی سفارت کاری دائیں بازو کے گروپس کے غصے سے بچ پائے گی؟ میرا ماننا ہے کہ ہاں، لیکن اس کے لیے تبدیلی ضروری ہے۔
اگر ہم ایک متنوع دنیا کے پرانے ڈھانچوں اور سخت تقسیم سے چمٹے رہے تو ہم ایک آتے ہوئے سائبر ٹرک کی ہیڈلائٹس کی روشنی میں کھڑے رہ جائیں گے اور آگے بڑھنا ممکن نہیں ہوگا۔
یہ آسان نہیں ہوگا۔ دنیا کے سب سے بڑے تاریخی آلودگی پھیلانے والے ممالک شاید اپنی ذمہ داریوں سے اور بھی زیادہ منہ موڑ لیں، لیکن اسی جدوجہد کے اندر حقیقی تبدیلی کی صلاحیت بھی پوشیدہ ہے۔
ہم اس وقت شاید جمود کا شکار ہوں، لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ہم ایک نئے موسمیاتی دور کے دہانے پر ہوں۔ ایسا دور جو پرانی نوآبادیاتی طاقتوں پر انحصار نہ کرے بلکہ موسمیاتی قیادت کے لیے ایک نیا، نوآبادیاتی اثر سے آزاد نظام تشکیل دے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو شاید کوئی دوسرا راستہ ہی نہ بچے۔
کرس رائٹ، کلائمیٹ ٹریکر کے بانی ہیں اور گذشتہ 15 سال سے اقوام متحدہ کے موسمیاتی مذاکرات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
© The Independent