میری رائے میں اس کا جواب یہ ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کی سیاسی ضرورت ہے کہ جنگ جاری رہے، اور دوسری طرف اگر جنگ بندی کا مطلب اقتدار یا باقی ماندہ طاقت سے دستبردار ہونا ہو تو حماس بھی بھی جنگ ختم کرنے پر راضی نہیں ہو سکتی۔
ایسا لگتا ہے کہ فریقین جنگ کا خاتمہ نہیں چاہتے۔ یہ بات اتنی سادہ اور اتنی ہی المناک ہے۔
دریں اثنا وہ واحد فریق جو اس کلیے کو بدل سکتا ہے، وہ امریکہ ہے جو فی الحال مؤثر طریقے سے کھیل میں حصہ ہی نہیں لے رہا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یکطرفہ طور پر درجنوں ممالک پر وسیع اور بےتحاشا ٹیرف عائد کر رہے ہیں، اور امریکہ کو چین کے ساتھ مکمل تجارتی جنگ کے خطرناک دہانے تک قریب دھکیل رہے ہیں۔
انہوں نے مالیاتی منڈی میں ہلچل پیدا کر دی ہے اور گرین لینڈ حاصل کرنے کے اپنے جنون کی وجہ سے نیٹو کے 12 اصل بانیوں میں سے ایک ڈنمارک کو دھمکا رہے ہیں، کینیڈا کی تذلیل کر رہے ہیں، اسے دھمکیاں دے رہے ہیں اور اس پر سخت ٹیرف عائد کر رہے ہیں۔
ان سب کے ساتھ ساتھ یوکرین-روس جنگ میں جنگ بندی تک پہنچنے کے لیے ٹرمپ کی کوششوں (میں انہیں جعلی مذاکرات کہوں گا) کی شرمناک ناکامی ہوئی ہے۔ اس عالم میں یہ شاید یہ بھول جانا بہت آسان ہے کہ غزہ میں اب بھی جنگ جاری ہے اور اب ایک پرانے خیال کا نیا ورژن سامنے آیا ہے: جنگ بندی اور قیدیوں کا معاہدہ۔
مصری ثالثوں کو پیش کی گئی اسرائیلی تجویز میں کئی اہم نکات شامل ہیں: 45 روزہ جنگ بندی جو دہری امریکی شہریت کے حامل اغوا شدہ اسرائیلی فوجی عدن الیگزینڈر کی رہائی کے ساتھ شروع ہو گی۔ اس کے بعد تین مراحل میں 10 زندہ اسرائیلی قیدی کی رہائی عمل میں آئے گی۔ اس کے بدلے میں، براہ راست ملوث ہونے اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے الزام میں عمر قید کی سزا کاٹنے والے 120 فلسطینی، اور ’سینکڑوں دیگر فلسطینی قیدیوں اور حراستیوں‘ کی اضافی رہائی ہو گی۔
اس کے بعد تجویز میں ٹائم ٹیبل، طریقۂ کار اور تبادلے کی تفصیلات بتائی گئی ہیں، جس میں ان قیدیوں کی واپسی بھی شامل ہے جو قید کے دوران مر گئے یا انہیں پھانسی دے دی گئی۔ اس دوران اسرائیلی فوج نے کہا کہ وہ 18 مارچ کو یکطرفہ طور پر پچھلی جنگ بندی توڑنے کے بعد قبضہ کیے گئے علاقوں سے دوبارہ تعینات ہو جائے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپنی تجویز کے مطابق اسرائیل مستقل جنگ بندی اور جنگ کے خاتمے پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے (دونوں جنوری کی جنگ بندی میں نمایاں طور پر شامل تھے، جو 58 دن تک برقرار رہی، جس کے بعد اسرائیل نے ’فیز 2‘ پر آگے بڑھنے سے انکار کر دیا)، لیکن غزہ کی پٹی سے دستبردار نہیں ہو رہا، بلکہ اسرائیل غزہ کی پٹی کے اندر دوبارہ فوجی تعینات کر رہا ہے۔
آگے تجویز کا متنازع حصہ ہے: حماس کی فوجی صلاحیت کا خاتمہ۔ یہ جنگ کے خاتمے کے کسی بھی معاہدے کے لیے اسرائیل کی شرط ہے۔ اگرچہ یہ سمجھ میں آتی ہے کیوں کہ یہ بات سیاسی طور پر منطقی ہے اور خاص طور پر سات اکتوبر 2023 کے واقعات کے بعد اسے آسانی سے جائز قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن یہ چل نہیں سکتی (اور اس پر حماس رضاکارانہ طور پر اور اپنی مرضی سے نہیں کرے گی)۔
متوقع طور پر حماس نے پہلے ہی اس خیال کو مسترد کر دیا ہے۔ گذشتہ منگل کو اس نے ایک بیان میں کہا، ’یہ شکست ہے۔۔۔ ہم مذاکرات کے جزو کے طور پر غیر مسلح ہونے سے انکار کرتے ہیں۔‘ اگر حماس اس موقف پر قائم رہتی ہے، تو بلاشبہ اور ناگزیر طور پر جنگ جاری رہے گی۔
کلیدی معاملہ یہ ہے کہ فریقین ’فتح‘ کی تعریف کیسے کرتے ہیں۔ اسرائیل کے لیے حماس کی مکمل تباہی اور اقتدار سے مستقل ہٹانے سے کم کوئی بھی چیز فتح تصور نہیں کی جائے گی، قطع نظر اس کے کہ مقامی طبی حکام کے مطابق گذشتہ 18 ماہ میں 50,000 سے زائد فلسطینی قتل کیے جا چکے ہیں، اور غزہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔
کیا یہ قابل حصول ہدف ہے؟ اگر آپ سات اکتوبر کے بعد سے ہونے والے واقعات کو دیکھیں تو اس کا جواب ہے، نہیں۔ کیا یہ حاصل کیا جا سکتا ہے؟ ہاں، لیکن صرف اس صورت میں جب اسرائیل پوری غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لے۔ اور پھر کیا ہو گا؟
اس کا جواب سادہ ہے: اگر آپ کا کسی جگہ پر قبضہ ہے تو آپ اس کے مالک ہیں۔ اور ’مالک‘ کا مطلب ہے صحت کے نظام، خوراک، پینے کے قابل پانی، انسانی امداد، غزہ کی تقریباً معدوم معیشت، قانون اور نظام کی دیکھ بھال۔ کیا اسرائیل یہ کرنا چاہتا ہے؟ بالکل نہیں۔
تو یہ اس کے بجائے کیا کر رہا ہے؟ غزہ کی پٹی پر مکمل قبضہ کیے بغیر جنگ کو جاری رکھ کر فوجی حکومت قائم کر رکھی ہے۔
حماس نے اسرائیل پر تاریخی حملہ کیا۔ اس جنگجو تنظیم نے بلاشبہ اسے ایک اپنی فتح سمجھا۔ لیکن سیاسی طور پر وہ ’جیتنے‘ کی تعریف جنگ کے خاتمے کے بعد ایک شخص کے کھڑے ہو کر جھنڈا لہرانے کے طور پر کرتے ہیں۔
سات اکتوبر کے المناک واقعات نے ایک انتہائی جدید اور تکنیکی طور پر برتر فوج اور زمین کے سب سے گنجان آباد حصوں میں سے ایک میں کام کرنے والی تنظیم کے درمیان بنیادی عدم توازن کو تبدیل نہیں کیا۔
لیکن عدم توازن دونوں طرح سے کام کر سکتا ہے: اسرائیل غزہ پر اپنے غیر متناسب ردعمل کے ساتھ ایک پیچیدہ اور ناقابل فتح شہری جنگ میں پھنس گیا، اور خود کو عالمی جانچ پڑتال اور مذمت کا نشانہ بنا دیا، اور اسے ہیگ میں بین الاقوامی عدالت انصاف میں نسل کشی کے الزامات کا جواب دینا پڑا۔
اس وحشیانہ جنگ کی رفتار اور طویل العمری کو ایک بہت وسیع اور غیر دانشمندانہ سٹریٹجک پہلو سے بھی منسوب کیا جا سکتا ہے: اسرائیل کا حماس کو تباہ کرنے کے علاوہ کوئی واضح اور جان بوجھ کر سیاسی ہدف نہیں تھا۔ اس کے فوجی ذرائع کبھی بھی کسی مربوط سیاسی مقصد کے ساتھ ہم آہنگ نہیں تھے، یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے کسی بھی جنگ کے بعد کے غزہ کے منصوبوں یا وعدوں پر غور کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حماس اب بھی موجود ہے، اور یہی وجہ ہے کہ جنگ جاری ہے۔
ایلون پنکس اسرائیل کی جانب سے امریکہ کے لیے کونسل جنرل اور اسرائیل کے دو سابق وزرائے اعظم شمون پیریز اور ایہود باراک کے مشیر رہ چکے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
© The Independent