پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے کی شاید ہی پاکستان اور یہاں کے عوام سمیت کسی نے ذی شعور شخص نے حمایت کی ہو۔ پاکستان خصوصاً بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ایسے واقعات معمول بن چکے ہیں، جس کی مثال جعفر ایکسپریس پر ہونے والے بی ایل اے کا حملہ تھا جسے صرف بربریت سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
بلوچستان میں شناختی کارڈز دیکھ کر نہتے مزدوروں کو قتل کرنے کے واقعات ہوں یا خیبر پختونخوا میں مساجد تک کو نشانہ بنانا، ان حملوں میں خوارج چاہے کالعدم ٹی ٹی پی کی شکل میں ہوں یا بی ایل اے کی شکل، ان کو انڈیا کی بھرپور مالی اور لاجسٹک سپورٹ حاصل رہی ہے، جس کے ثبوت درجنوں بار اعلیٰ عسکری اور سیاسی حکام دنیا کے سامنے رکھ چکے ہیں۔
ایسے میں پاکستان جسے خود بدترین دہشت گردی کی لہر کا سامنا ہے، لائن آف کنٹرول کے چار سو کلو میٹر اندر نہتے سیاحوں کو کیوں کر اور کیسے نشانہ بنا سکتا ہے؟ پھر حملہ ہونے کے دو منٹ کے اندر انڈیا میڈیا کی پاکستان کے ملوث ہونے کی یلغار سے ہی اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔
اس حملے کی آڑ میں پاکستان کے سفارتی مشن کو کم کرنا ہو، پاکستانیوں کے ویزے کینسل کرنا ہو یا سب سے بڑھ کر سندھ طاس معاہدے کو یک طرفہ طور پر ختم کرنے جیسے اقدامات ہوں، اس سے یہ تقریباً واضح ہو گیا تھا کہ اس حملے کی آڑ میں نریندر مودی حکومت حاصل کیا کرنا چاہتی تھی۔
لیکن داد دینی پڑے گی پاکستان کی سیاسی جماعتوں، اور عسکری اور حکومتی قیادت کو، جنہوں نے تحمل سے حالات کا نہ صرف سامنا کیا بلکہ قومی سلامتی کمیٹی نے توقعات کے عین مطابق ردعمل دیا اور انہی اقدامات کا اعلان کیا جس کے علاوہ پاکستان کے پاس کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔
یہاں پاکستان کی سیاسی جماعتوں بشمول تحریک انصاف کی قیادت نے بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کافی عرصے بعد جس یکجہتی کا ثبوت دیا، حالات کا تقاضا بھی تھا۔ دوسری جانب میڈیا اور عوام نے بھی یک زبان ہو کر انڈیا کی جانب سے ملک کو درپیش خطروں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ہمت دکھائی ہے اور قومی اتفاقِ رائے کا مظاہرہ کیا ہے۔
ہماری اطلاعات کے مطابق حکومت نے سندھ طاس کے معاملے میں بین الاقومی طور پر ایک مضبوط قانونی حکمت عملی بھی مرتب کر لی ہے جس کا اعلان جلد کر دیا جائے گا۔ آبی ماہرین میں سے کچھ کا مؤقف یہ ہے کہ پاکستان کو زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ فی الحال انڈیا کے پاس پانی کا رخ موڑنے یا پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہی نہیں۔
برطانوی اخبار ’گارڈین‘ کے مطابق بھی انڈیا فوری طور پر پاکستان کا پانی روک ہی نہیں سکتا۔ لیکن معاملہ صرف سندھ طاس معاہدے کا نہیں، مودی کی قیادت میں انڈین حکومت سے اس کے بعد کسی بھی اقدام کی توقع کی جا سکتی ہے جس کے لیے پاکستان کی سیاسی قیادت کو تیار رہنا پڑے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پہلگام حملے میں انڈیا ابھی پاکستان کے خلاف ثبوت سامنے لانے میں ناکام رہا ہے اور لگتا یہ ہے کہ جنگ کا جواز بنایا جا رہا ہے۔ مجموعی طور پر اگر انٹرنیشنل میڈیا نظر ڈالی جائے تو شاید یہ پہلی دفعہ ہے کہ انڈیا کے یکطرفہ الزامات پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب کئی ممالک نے پاکستانی مؤقف کی حمایت کی ہے جن میں چین سر فہرست ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کو بھی انڈیا کے مؤقف کے تناظر میں انڈیا کے لیے مایوس کن ہی قرار دیا جا رہا ہے۔
اب آگے کیا ہو گا؟ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ خطے پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں اور انڈیا آبی جارحیت کے بعد جنگی جارحیت بھی ممکنہ طور پر کر سکتا ہے، جس کا اظہار وزیردفاع خواجہ آصف بھی کر رہے ہیں۔ پہلے تو اگر ایسے کسی ایڈوینچر کی کوشش کی گئی تو اس کا اور فی الفور اور بھرپور جواب دیا جائے گا اور اس مؤقف کا اظہار فوج کی اعلی قیادت دو ٹوک الفاظ میں کر چکی ہے۔
ضرورت اس وقت اس بات کی ہے سیاسی قیادت میں اس مسلے پر اتفاق رائے پیدا کر کے آگے بڑھا جائے، چاہے سندھ طاس معاہدے پر بین الاقومی سطح پر قانونی آپشنز کی حکمت عملی ہو یا پھر اگر ایران یا سعودی عرب کے ذریعے ثالثی کا معاملہ یہ فیصلے وزیراعظم کی زیرنگرانی آل پارٹیز کانفرنس بلا کر کرنی چاہیے۔
اس وقت قومی اتفاق رائے اسی طرح ریفلیکٹ ہونا چاہیے جس طرح گذشتہ رات مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کے بعد ہوا، جس کا اہم فیصلہ یہی تھا کہ جس بھی منصوبے پر تمام صوبوں میں اتفاق رائے موجود نہ ہو اس پر آگے نہیں بڑھا جائے گا۔
چولستان نہر والا معاملہ بھی ایک متنازعہ منصوبہ تھا جس پر سندھ حکومت کو شدید اعتراضات تھے۔ اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کے بعد بلاول بھٹو کی ’پاکستان کھپے‘ کی ٹویٹ ہی پاکستان انڈیا کشیدگی میں سیاسی حکمت عملی جیسی ہونی چاہیے۔
مودی سرکار کے جنگی جنون کو دنیا پر مزید آشکار کرنے اور خصوصا سندھ طاس معاہدے والے ایشو پر بلاول بھٹو عالمی سطح پر پاکستانی مؤقف کی نمائندگی کرتے ہوئے بھرپور کردار ادا کر سکتے ہیں۔
آج ایک انٹرویو میں انہوں نے اس بات پر بھی اعتراض اٹھایا کہ پاکستان کو شملہ معاہدہ نہیں توڑنا چاہیے اس سے ہمیں نقصان ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ صرف حکومت نہیں تمام سیاسی جماعتوں اس وقت سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور مستقبل کے لائحۂ عمل پر متفقہ فیصلے کرنے ہوں گے۔
تحریک انصاف کو بھی یہ سوچنا ہو گا کہ تمام سیاسی جماعتوں کی سیاست پاکستان سے ہی ہے، اور پاکستان کے خلاف کسی بھی بیرونی جارحیت چاہے وہ جس شکل میں بھی ہو، اس میں ان کی جماعت شانہ بشانہ مقابلے میں پیش پیش ہو گی۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔