ایک تھا نیشنل ایکشن پلان!

ریاست اُن شر پسندوں سے مسلسل لاعلم ہے جو کسی کو کہیں بھی مرتد، کافر کہہ کر نذر آتش کر دیتے ہیں اور چند دن تاسف کے بعد معاملہ منوں مٹی تلے دب جاتا ہے۔

سپرنٹنڈنٹ آف پولیس محمد صفدر کے مطابق 18 اپریل 2025 کو کراچی صدر میں موجود احمدیوں کی عبادت گاہ کے باہر سے ہجوم کو بعد میں منتشر کر دیا گیا، اور عمارت کے اندر پھنسے 15 افراد کو بچا لیا گیا (عامر محمود)

ریاست کے ہاتھ میں جتنی اُنگلیاں ہیں سب شَکر سے بھری ہیں۔ گھی ٹیڑھی اور سیدھی دونوں انگلیوں سے نکالنے کا ہُنر بھی گذشتہ 75 برسوں سے آتا ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ لاٹھی کس بھینس پر کب اور کیسے چلانی ہے؟

ریاست 15 ہزار جدید اسلحے سے لیس دہشت گردوں سے بھی لڑ رہی ہے اور 1500 باغیوں کو گھیرنا بھی جانتی ہے۔۔۔ یقیناً چھ لاکھ فوج ایک ارب 30 کروڑ کی آبادی اور سرحد پار طاقت ور فوج سے بھی نمٹنا جانتی ہے۔

کوئی شُبہ نہیں کہ ہم اہداف سے بھی آگاہ ہیں اور رفتار سے بھی مگر ریاست نہیں جانتی تو اُن مُٹھی بھر انتہاپسندوں کو جو کراچی کی عبادت گاہ میں آنے والے احمدیوں کی شناخت کرتے ہیں اور اُن کا پیچھا کرتے ہیں یہاں تک کہ ڈھونڈ کر قتل بھی کر دیتے ہیں۔

ریاست اُن شر پسندوں سے مسلسل لاعلم ہے جو کسی کو کہیں بھی مرتد، کافر کہہ کر نذر آتش کر دیتے ہیں اور چند دن تاسف کے بعد معاملہ منوں مٹی تلے دب جاتا ہے۔

ہر کچھ عرصے بعد رونما ہونے والے واقعات چند لمحے معاشرے کے ضمیر کو جھنجھوڑتے ضرور ہیں مگر پھر ہم کسی دوسرے سانحے کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خطرہ دو قومی نظریے کو نہیں بلکہ نظریوں میں بٹی قوم کو ہے۔

سوات میں بیچ چوراہے جلائے جانے والے مسافر، مردان یونیورسٹی میں ذاتی دشمنی کو توہین کی شکل دے کر ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے معصوم مشال خان، بغیر کتبوں قبروں میں بھی غیر محفوظ احمدی، مسمار شُدہ قبروں میں موجود بے نشان ہڈیاں مردہ معاشرے کی بے ضمیری کا مُنہ بولتا ثبوت ہیں مگر ارباب اختیار یا تو خاموش ہیں یا مفاد کی فیکٹری کے اِن اوزاروں سے بے پروا۔

ریاست مستقل تجربہ گاہ ہے، پراجیکٹ بناتی ہے، استعمال کرتی ہے، اُنہی کے ہاتھوں شکار ہوتی ہے اور پھر اُنہیں تاراج کرنے میں لگ جاتی ہے۔ آخر کسی طور مصروفیت بھی تو ضروری ہے۔

ایک پراجیکٹ کے آغاز کے لیے ایک گروہ اور پھر اُس کے خاتمے کے دوسرا گروہ۔ ایک سیاسی جماعت کی بناوٹ تو دوسری کی گراوٹ، ایک دس سالہ منصوبہ تو کبھی دوسرا دس سالہ پروگرام اور اس سب کے درمیان عوام جو کبھی زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں تو کبھی مُردہ باد کی صدا بُلند کرتے ہیں۔

آمریت سے فسطائیت اور ہائبرڈ سے ہائبرڈ پلس کی جانب سفر میں بس چہرے بدلتے ہیں، کردار اور عوامل ایک سے رہتے ہیں۔

انتہا پسندی کا عفریت پھیل رہا ہے۔ جس کے ہاتھ میں آگ ہو وہ پانی کا کیوں سوچے گا۔ اُس کا مصرف صرف آگ لگانا ہی ہو گا لیکن شاید ایسے سانپ آستینوں میں اس لیے پالے جاتے ہیں کہ وہ مخالف گریبانوں میں اُچھالے جائیں۔ نفرت کے اس کاروبار میں محبت کے گھاٹے کا سودا کوئی کیوں کرے گا؟

آئین پاکستان کے بعد مملکت پاکستان کی سب جماعتوں اور اسٹیبلمشنٹ کا متفقہ نیشنل ایکشن پلان موجود ہے جس پر 2014 کے بعد عمل درآمد کیا گیا تو اُس کے مثبت اثرات بلاشُبہ دیکھنے کو ملے۔

دہشت گردی پر کسی حد تک قابو پایا گیا البتہ ریاست کی ’سیاسی ضروریات‘ کے پیش نظر جمہوری قوتوں کو دباؤ میں لانے کے لیے وسطی پنجاب کی مذہبی جماعت کی اچانک ترویج سامنے آئی جو بعد ازاں حسب منشاء اور حسب ذائقہ استعمال کی جانے لگی۔

حیرت انگیز طور پر انتہا پسند گروہ کی مشروم نشوونما نے کئی خاموش سوالوں کو جنم دیا ہے اور چونکہ خاموشی کی اپنی زبان تھی اور اس زُبان کے سامنے سب بے زُبان۔

فیض آباد دھرنے اور پھر اس کے نتیجے میں ہونے والے معاہدے اس بات کا ثبوت ہیں کہ فیض ہو یا فیض آباد پسند اپنی اپنی نصیب اپنا اپنا۔

پاکستان اس وقت جن چیلنجز سے گُزر رہا ہے بلاشُبہ یہ موڑ نازک سے خطرناک ہو چکا ہے۔ ہم ایک ٹک ٹک کرتے بم پر کھڑے ہیں۔ ہمارے پیروں کے نیچے زلزلوں کی گُزرگاہیں ہیں۔ مانا کہ معیشت سب سے اول چیلنج ہے لیکن انتہا پسندی دھیرے دھیرے گُھن کی طرح نکل رہی ہے۔ منافرت اور تقسیم لڑائی کو گلی محلے تک لے آئی ہے۔

انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیےجو بھی ایکشن پلان ہے اُس پر عمل کرنا ہو گا، ریاست کی چھتری تلے چھپے گروہوں، پریشر گروپوں کے خاتمے کے بغیر معاشرہ تندرست نہیں ہو گا اور بیمار معاشرے کب تک زندہ رہتے ہیں؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر