افغانستان میں لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم پر پابندی کی کھل کر مذمت کرنے والے طالبان حکومت کے ایک سینیئر وزیر مبینہ طور پر گرفتاری کے خدشے کے پیش نظر ملک سے فرار ہو گئے۔
طالبان کی وزارت خارجہ میں سیاسی نائب شیر عباس ستنکزئی نے رواں سال جنوری میں دیگر طالبان رہنماؤں سے لڑکیوں اور خواتین کے لیے تعلیمی ادارے کھولنے کی اپیل کی تھی۔
انہوں نے کہا تھا کہ تعلیم پر پابندی کا حکم شریعت کے مطابق نہیں جیسا کہ سخت گیر طالبان حکام دعویٰ کرتے ہیں۔
انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ ’اس پابندی کا کوئی جواز نہیں۔ نہ اب اور نہ ہی مستقبل میں۔‘
سیاسیات اور فوجی سکول کے گریجویٹ ستنکزئی نے مزید کہا کہ ’ہم دو کروڑ افراد کے ساتھ ناانصافی کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے خواتین اور لڑکیوں پر مشتمل افغانستان کی تقریباً نصف آبادی کی طرف اشارہ کیا۔
صوبہ خوست میں ایک گریجویشن تقریب کے دوران اُن کا یہ کھلے عام بیان طالبان کی تعلیم پر پابندی کے خلاف پہلی واضح مخالفت تھی۔
یہ بیان اس بات کی نادر مثال ہے کہ افغانستان کے حقیقی حکمرانوں کے ایک اہم فیصلے پر اندرونی اختلافات موجود ہیں۔
تین سال سے زیادہ عرصے سے طالبان نے پورے ملک میں خواتین کی تعلیم پر سخت پابندی عائد کر رکھی ہے، جس کے تحت لڑکیوں اور خواتین کو چھٹی جماعت کے بعد سکول جانے کی اجازت نہیں، چاہے اس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر انہیں تنہائی کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑا ہو۔
بیان کے فوراً بعد طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ نے مبینہ طور پر ستنکزئی کی گرفتاری کا حکم دیتے ہوئے ان پر سفری پابندی عائد کر دی تھی۔
تاہم نیوز چینل افغانستان انٹرنیشنل کے مطابق وہ طالبان کے ہاتھ آنے سے پہلے ہی متحدہ عرب امارات روانہ ہو چکے تھے۔
ستنکزئی نے گذشتہ ہفتے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ وہ دبئی روانہ ہو چکے ہیں، تاہم ان کے بقول اس کی وجہ صحت کے مسائل ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں جب طالبان کے ان سینیئر رہنما نے، جنہیں طالبان کے اندر نسبتاً اعتدال پسند سمجھا جاتا ہے، افغان خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم کی بحالی کا مطالبہ کیا ہو۔
ستمبر 2022 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے ایک سال بعد ستنکزئی نے کہا تھا کہ کسی کے پاس ایسا کوئی مذہبی جواز نہیں جو لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنے کو جائز ثابت کر سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سکول اور کالج مرد و خواتین دونوں کے لیے لازمی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا ایک قریبی اتحادی ملک میں فرار ایسے وقت میں سامنے آیا جب طالبان کی قیادت کے دو بڑے دھڑوں کابل اور قندھار میں موجود طاقت کے مراکز کے درمیان اختلافات کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔
طالبان کے سپریم لیڈر قندھار میں مقیم ہیں جہاں سے وہ کسی بھی طرح سے منظر عام پر آئے بغیر مطلق العنان حکمرانی کر رہے ہیں۔
امریکہ کے سپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن(سیگار) کے مطابق طالبان قیادت کے اندر بھی تعلیم پر عائد پابندی پر اختلافات موجود ہیں۔
یہ آزاد امریکی ادارہ جنگ سے تباہ حال افغانستان میں بحالی کے عمل کی نگرانی کرتا ہے۔
گذشتہ ہفتے طالبان کے نائب وزیر داخلہ محمد نبی عمری کو خوست صوبے میں عوامی اجتماع کے دوران آبدیدہ ہوتے دیکھا گیا۔
وہ طالبان کی سخت تعلیمی پابندیوں کے لڑکیوں اور خواتین پر پڑنے والے اثرات پر بات کر رہے تھے۔
اس تقریب، جو ایک مقامی سکول میں منعقد ہوئی، کے دوران وزیر کا جذباتی ردعمل کیمرے میں ریکارڈ ہو گیا اور اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو گئی۔
انہوں نے نم آنکھوں سے اور چہرہ ڈھانپتے ہوئے کہا: ’میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ اگر (لڑکیوں کی تعلیم) کوئی مذہبی فریضہ یا روایت نہیں تو بھی تو کم از کم اس کی اجازت تو ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’خدا ہمیں صحیح راستہ دکھائے۔ جب مذہبی تعلیم کی اجازت ہے تو جدید علوم کی بھی اجازت ہونی چاہیے۔‘
یہ بیان افغانستان انٹرنیشنل نے رپورٹ کیا۔
© The Independent