امریکہ بھر کی یونیورسٹیوں میں ٹرمپ انتظامیہ کے اقدامات کے خلاف مظاہرے

مظاہرین کا کہنا ہے کہ اعلیٰ تعلیم پر وسیع حملے کیے جا رہے ہیں جن میں بڑے پیمانے پر فنڈز میں کٹوتیاں، بین الاقوامی طلبہ کی بے دخلی اور غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے بارے میں آزادی اظہار کو دبانا شامل ہیں۔

17 اپریل 2025 کی اس تصویر میں نیو یارک سٹی میں لوگ یونیورسٹیوں اور تعلیم کے حق میں اور غیر ملکی طلبا کی گرفتاری کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے (اے ایف پی/سپینسر پلاٹ)

امریکہ بھر میں جمعرات کو یونیورسٹی پروفیسروں اور طلبہ نے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے لیے گئے شعبہ تعلیم میں اقدامات کے خلاف کیمپسز میں احتجاجی مظاہرے کیے۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ اعلیٰ تعلیم پر وسیع حملے کیے جا رہے ہیں جن میں بڑے پیمانے پر فنڈز میں کٹوتیاں، بین الاقوامی طلبہ کی بے دخلی اور غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے بارے میں آزادی اظہار کو دبانا شامل ہیں۔

یہ مظاہرے ہارورڈ یونیورسٹی سمیت کئی جامعات میں ہوئے جہاں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے یونیورسٹی کو دی گئی دو ارب 20 کروڑ ڈالر کی گرانٹ اور معاہدوں کو منجمد کرنے کا اعلان کیا اور یونیورسٹی کی بین الاقوامی طلبہ کی میزبانی کی اہلیت ختم کرنے کی دھمکی دی۔

ہارورڈ کے شعبہ گورنمنٹ میں گریجویشن کرنے والی طالبہ روشیل سن نے کہا کہ وہ بین الاقوامی طلبہ کی حمایت کر رہی ہیں کیوں کہ یہ طلبہ یونیورسٹی کے اس مقصد کے لیے لازمی ہیں جو ’انسانی علم کی حدود‘ کو وسعت دینے سے متعلق ہے۔

کیمبرج، میساچوسٹس میں ہونے والے احتجاج کے بعد سن نے کہا کہ ’یہاں میری تعلیم اور تحقیق کا بنیادی مقصد دنیا کے بہترین سکالرز کے درمیان موجود ہونا ہے۔ اگر یہ طلبہ میرے ساتھ نہیں ہوں گے تو میں بھی یہاں اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکوں گی۔‘

سن نے ایک پوسٹر اٹھا رکھا تھا جس پر لکھا تھا کہ ’مجھے اپنا مقالہ لکھنا چاہیے تھا مگر میں مسلسل اس احمقانہ فسطائیت کے خلاف لڑ رہی ہوں۔‘

ہارورڈ سکول آف پبلک ہیلتھ میں وبائی امراض کی پروفیسر نینسی کریگر نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ایسے پروگراموں میں کٹوتیوں پر بات کی جو طبی دریافتوں اور عوامی صحت کی نگرانی کے لیے ضروری ہیں۔

انہوں نے کہا: ’ہم ایک بہتر دنیا بنانے کے لیے اپنا کام کر رہے ہیں جہاں اس سیارے پر رہنے والے تمام لوگ مساوی طور پر ترقی کر سکیں۔‘

کریگر کا کہنا تھا کہ نیشنل انسٹی ٹیوٹس آف ہیلتھ کی طرف سے ان کی گرانٹ فروری کے آخر میں ختم کر دی گئی کیوں کہ یہ صحت کے شعبے میں امتیازی سلوک پر تحقیق پر مبنی تھی اور اس نوعیت کی تحقیق کو نجی کمپنیاں یا فلاحی ادارے شاید ہی فنڈ فراہم کریں گے۔

کریگر نے مظاہرین کے نعروں کی گونج میں کہا کہ ’ہمیں یہ رقم تحقیق، تعلیمی سرگرمیوں اور اگلی نسل کی تربیت و تدریس پر خرچ کرنی چاہیے تاکہ وہ عوامی صحت کا تحفظ یقینی بنا سکے۔‘

وفاقی فنڈنگ نشانے پر

اعلیٰ تعلیم کے اداروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو وفاقی فنڈنگ روکنے کے معاملے میں حکومت کی طرف سے نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ انہیں ٹرمپ انتظامیہ کے سیاسی ایجنڈے کا پابند بنایا جا سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکہ کی چند اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں کو دھمکیوں اور بعد ازاں فنڈز کی معطلیوں کے اس سلسلے نے انتظامیہ کو تعلیمی اداروں پر اثر انداز ہونے کا ایک ایسا غیر معمولی ہتھیار فراہم کر دیا ہے جس کی پہلے مثال نہیں ملتی۔

ٹرمپ نے گذشتہ برس اپنی انتخابی مہم کے دوران اعلان کیا کہ وہ ان اداروں کے فنڈز میں کٹوتیوں پر توجہ دیں گے جو ’ تنقیدی نسلی نظریے، خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق جنون، اور دیگر نامناسب نسلی، جنسی یا سیاسی مواد‘ کو فروغ دیتے ہیں۔

رپبلکن عہدے داروں نے ان یونیورسٹیوں کی بھی سخت نگرانی کی جہاں گذشتہ برس غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے دوران فلسطینیوں کے حق میں احتجاج کیا گیا جب کہ متعدد آئیوی لیگ جامعات کے صدور نے کانگریس کے سامنے پیش ہو کر یہود دشمنی کے الزامات پر وضاحتیں بھی پیش کیں۔

ٹرمپ اور دیگر حکام نے مظاہرین اور ان کے حامیوں پر ’حماس نواز‘ ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔ کئی مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ تنازعے کے دوران اسرائیل کے اقدامات کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے۔

امریکی حکومت نے اپنے امیگریشن اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ان بین الاقوامی طلبہ اور سکالرز کے خلاف کارروائیاں کیں جنہوں نے فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں میں حصہ لیا یا غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائی پر تنقید کی۔

ان میں سے کچھ افراد کو حراست میں لیا گیا یا ملک بدر کر دیا گیا جب کہ دیگر طلبہ امریکہ چھوڑ گئے کیوں کہ انہیں معلوم ہوا تھا کہ ان کے ویزے منسوخ کر دیے گئے ہیں۔

جمعرات کو ہارورڈ میں ہونے والا احتجاج اس وقت ہوا جب چند ہی دن پہلے یہ یونیورسٹی پہلی بار کھل کر ٹرمپ انتظامیہ کے مطالبات کے سامنے کھڑی ہو گئی۔

انتظامیہ نے کیمپس میں سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر تبدیلیوں کا مطالبہ کیا۔ یونیورسٹی کا مؤقف ہے کہ یہ مطالبات صرف آئیوی لیگ کے اس ادارے کے لیے ہی نہیں بلکہ اس خودمختاری کے لیے بھی خطرہ ہیں جو امریکی سپریم کورٹ نے طویل عرصے سے امریکی جامعات کو دے رکھی ہے۔

دوسری جانب یونیورسٹی آف کیلی فورنیا برکلے میں تقریباً ساڑھے چار سو افراد احتجاج کے لیے جمع ہوئے، جہاں سابق پروفیسر اور سابق وزیر محنت رابرٹ رائش نے مظاہرین سے خطاب میں ٹرمپ کو خوش کرنے کی پالیسی پر تنقید کی۔

سابق صدر بل کلنٹن کی کابینہ میں خدمات انجام دینے والے رائش نے کہا کہ ’آپ کسی جابر کو خوش نہیں کر سکتے۔ کولمبیا یونیورسٹی نے ایک ظالم کو خوش کرنے کی کوشش کی، جو کامیاب نہیں ہوئی۔‘

نیویارک میں کولمبیا یونیورسٹی نے ابتدا میں ٹرمپ انتظامیہ کے کئی مطالبات تسلیم کر لیے تھے مگر پیر کو یونیورسٹی کے قائم مقام صدر نے اپنے پیغام میں نسبتاً سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ بعض مطالبات پر ’بات چیت نہیں ہو سکتی۔‘

کولمبیا یونیورسٹی جہاں گذشتہ برس فلسطینیوں کے حق میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے، جن میں تقریباً ڈیڑھ سو افراد نے احتجاج کیا۔

مظاہرین وفاقی دفاتر والی ایک عمارت کے باہر میدان میں جمع ہوئے اور ان کے ہاتھوں میں پوسٹر تھے جن پر ’یونیورسٹیوں کے خلاف جنگ بند کرو‘ اور ’سنسرشپ فسطائیوں کا ہتھیار ہے‘ جیسے نعرے درج تھے۔

یہ مظاہرے ’کولیشن فار ایکشن اِن ہائیر ایجوکیشن‘ کی جانب سے منظم کیے گئے تھے جس میں ’ہائیر ایجوکیشن لیبر یونائیٹڈ‘ اور ’امریکن فیڈریشن آف ٹیچرز‘ جیسے گروپ شامل ہیں۔

امریکن ایسوسی ایشن آف یونیورسٹی پروفیسرز کے ترجمان کیلی بنجمن نے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کا تعلیمی اداروں کو تباہ کرنے کا مقصد بنیادی طور پر امریکہ مخالف ہے۔

بنجمن کے مطابق: ’امریکہ میں کالج تاریخی طور پر وہ مقامات رہے ہیں جہاں اس طرح کے مباحثے، مضبوط دلائل اور اختلاف رائے ہوتے ہیں۔ یہ جمہوریت کے لیے صحت مند ہے مگر انتظامیہ یہ سب کچھ ختم کرنا چاہتی ہے تاکہ وہ اپنے ایجنڈے اور نظریے کو نافذ کر سکے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس