قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے تاجر برادری کے تحفظات کے پیش نظر تین نکاتی حل پیش کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ آج کے بعد نیب ٹیکس چوری کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ نیب کی جانب سے تاجروں کے تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے درج ذیل تین اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔
ایک: نیب آج کے بعد ٹیکس چوری کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا، ٹیکس کے معاملات فیڈرل بورڈ آف ریونیو دیکھے گا، تاہم انہوں نے تاجر برادری سے درخواست کی کہ وہ اپنے معاملات درست رکھیں۔
دو: نیب کسی ایسے کیس کو ڈیل نہیں کرے گا، جسے متعلقہ بینک نے ریفر نہ کیا ہو۔ سٹیٹ بینک کی پالیسی کے نتیجے میں متعلقہ فریقین اس پر مشاورت کریں گے اور اگر پھر بھی حل نہ نکلے تو بینکنگ کورٹ اسے دیکھے گی۔
تین: نیب کسی بزنس مین کو ٹیلی فون کال نہیں کرے گا کہ اتنے بجے فلاں دفتر میں آجائیں۔ اگر بلانا ضروری سمجھا گیا تو ڈائریکٹر جنرل اپنے طور پر تصدیق کرنے کے بعد نوٹس بھیجیں گے، جس میں وجہ بھی بیان کی جائے گی کہ نوٹس کیوں دیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے قبل پریس کانفرنس کے دوران جسٹس (ر) جاوید اقبال نے شکایتی لہجے میں کہا کہ تاجروں کے وفد کا وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے سامنے نیب کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرنا بلاجواز تھا اور وہ ان کی تردید کرتے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ جن تاجر دوستوں نے وزیراعظم اور آرمی چیف سے نیب کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا ہے وہ اس سے قبل نیب کے حق میں تعریفی مراسلے لکھتے رہے ہیں۔ انہوں نے ان تعریفی مراسلوں کو منظر عام پر لانے کا بھی عندیہ دیا۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال کا مزید کہنا تھا کہ وہ سیاستدان ہیں اور نہ ہی یہ ان کا مینڈیٹ ہے کہ سیاسی معاملات پر بات کریں تاہم بلاجواز تنقید کا جواب دینا ضروری ہے۔
چیئرمین نیب نے مزید کہا کہ بدعنوانی سے قومیں زوال کا شکار ہو جاتی ہیں، اس لیے ان کی مکمل توجہ اس لعنت کے خاتمے پر مرکوز ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔
سعودی ماڈلز کے اختیارات کے حوالے سے ان کے بیان کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ ان کی کبھی یہ خواہش نہیں رہی کہ ان کو سعودی طرز کے اختیارات دیے جائیں۔
انہوں نے کہا: ’کیا مجھے معلوم نہیں ہے کہ پاکستان ایک خود مختار جمہوری ملک ہے، جہاں آئین کی بالادستی ہے اور تمام ریاستی ادارے آئین کے تحت دیے گئے اختیارات کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اس تناظر میں یہ بڑی عجیب خواہش ہوگی کہ میں بادشاہت اور آمریت جیسے اختیارات حاصل کرنا چاہتا ہوں۔‘
مزید پڑھیے: مولانا فضل الرحمن سے پہلے تاجروں کے اسلام آباد مارچ کا اعلان
ساتھ ہی انہوں نے اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے یہ ضرور کہا تھا کہ اگر نیب کو بھی سعودی عرب کے ماڈلز جیسے اختیارات حاصل ہو جائیں تو وہ تین ہفتوں میں لوٹی ہوئی تمام قومی دولت واپس لا سکتے ہیں۔
چیئرمین نیب نے یہ پریس کانفرنس ایک ایسے وقت میں کی ہے جب تین اکتوبر کر راولپنڈی کے آرمی آڈیٹوریم میں ’انٹرپلے آف اکنامک اینڈ سیکیورٹی‘ کے موضوع پر منعقد سیمینار کے اختتامی سیشن سے خطاب کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملک کے نمایاں تاجروں سے ملاقات ہوئی۔ اس موقع پر سرکاری معاشی ٹیم بھی موجود تھی۔
بعدازاں یہ رپورٹس سامنے آئیں کہ آرمی چیف سے ملاقات میں تاجر و صنعت کار کاروبار میں مشکلات کی وجہ سے پھٹ پڑے تھے۔
اس حوالے سے اس میٹنگ میں موجود پاکستانی صنعت کار اور اے کے ڈی گروپ کے چیئرمین عقیل کریم ڈھیڈی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’یہ بالکل غلط ہے! اس ملاقات میں کسی بھی شخص نے ایسی کوئی بات نہیں کی جسے ہم شکایت کہہ سکیں۔ صنعت کاروں نے یہ ضرور کہا کہ ہمیں تھوڑے اعتماد کی ضروت ہے۔ آرمی چیف نے ہمیں رات کے کھانے کی دعوت دی تھی اور کھانے کے بعد ہم آرمی آڈیٹوریم میں بیٹھے۔ میٹگ میں ہر مسئلے پر کھل کر بات کی گئی۔‘
یہ بھی پڑھیں:جنرل باجوہ سے ملاقات میں کوئی بدمزگی نہیں ہوئی: عقیل کریم ڈھیڈی
ساتھ ہی انہوں نے کہا:’ہاں کچھ لوگ جیسے میاں منشا اور ملک ریاض وغیرہ نے نیب کے کیسز کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا لیکن دیگر صنعت کاروں نے کاروباری مسائل کے حوالے سے آگاہ کیا۔‘
عقیل کریم ڈھیڈی کا مزید کہنا تھا کہ حکومتی نمائندوں نے ہمیں یقین دہانی کرائی کہ بزنس کمیونٹی کے تمام مسائل کو وزیر اعظم سے ڈسکس کیا جائے گا اور انہیں حل کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی۔‘
اس سے قبل گذشتہ ماہ آل پاکستان انجمن تاجران نے ایف بی آر سے مذاکرات ناکام ہونے پر اسلام آباد مارچ کا فیصلہ کرتے ہوئے نو اکتوبر کے روز اسلام آباد میں جمع ہو کر مارچ کی کال بھی دی تھی۔