پاکستان کے قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے ان الزامات کے ردعمل میں، کہ نیب کی جانب سے گرفتاریوں پر کاروباری برادری کا اعتماد مجروح ہوا ہے، اعلان کیا ہے کہ آئندہ کسی بزنس مین کو نیب میں نہیں بلایا جائے گا بلکہ انہیں سوالنامہ بھجوا دیا جائے گا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین نیب نے کہا کہ تاجروں کو نہ تو نیب ہیڈ آفس اور نہ ہی ریجنل آفس بلایا جائے گا۔ بزنس کمیونٹی کی شکایات ڈی جی ہیڈ کوارٹرز خود سنیں گے۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’بزنس مین اگر نیب میں نہیں آ سکتے تو میں ان کے پاس چلا جاؤں گا۔‘
چیئرمین نیب نے کہا کہ یہ کوئی مغلیہ دور نہیں کہ ہم شکایت نہ سنیں۔ بڑے عہدوں پر فائز لوگوں کے کیسز کی تحقیقات ہوں گی تاہم کسی بیورو کریٹ کو ہتھکڑی نہیں لگائیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ جن لوگوں پر کیسز ہیں انہیں بڑے عہدوں پر فائز نہ کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نیب پہلے تحقیقات کرتا ہے اور ثبوت حاصل کرنے کے بعد گرفتار کیا جاتا ہے۔ اگر نیب کے پاس ثبوت نہ ہوتے تو لوگ باہر نہ بھاگ کرجاتے۔ ان کا کہنا تھا: ’ہم نے کسی بھی شخص کو بغیر شواہد کے 5 منٹ بھی حراست میں نہیں رکھا۔‘
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے واضح کیا کہ ’وہ دن گزر گئے جب نیب کو حکومت یا کوئی ادارہ احکامات صادر کرتا تھا۔ اب نیب وہی کرے گا جو پاکستان کے لیے بہتر سمجھے گا۔‘
چیئرمین نیب نے یہ بھی واضح کیا کہ نیب کا تعلق ریاست کے ساتھ ہے، حکومت کے ساتھ نہیں۔ ’حکومت کے ساتھ نیب کا تعلق دوستانہ ہوتا تو ہمیں بجٹ حاصل کرنے کے لیے تگ ودو نہ کرنا پڑتی۔ جن لوگوں کے کیس نیب میں چل رہے ہیں وہ وکلا کو کروڑوں روپے ادا کر رہے ہیں جبکہ نیب پراسیکیوٹرز کو چند لاکھ روپے ادا کیے جا رہے ہیں۔ لہذا نیب سے کیسے توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ کم بجٹ میں دفاع کرسکتا ہے؟‘
نیب پر ’پولیٹیکل انجینیئرنگ‘ کرنے کے الزام کا جواب دیتے ہوئے جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا: ’میں پولیٹیکل سائنس کا طالبعلم ہوں، یہ لفظ میں نے پہلی بار سنا ہے۔ اگر ایک الزام بھی ثابت ہو جائے تو میں عہدہ چھوڑ دوں گا۔‘
بریفنگ کے اختتام پر چیئرمین نیب نے کسی بھی صحافی کے سوالات لینے سے انکار کر دیا۔ صحافیوں کے پوچھنے پر انہوں نے کہا: ’سوال کی اجازت دوں تو بات کچھ سے کچھ رپورٹ ہو جاتی ہے اس لیے میں اب سوال لینے سے ڈرتا ہوں۔‘