جب ایک ہیرو آپ کو ناامید کرتا ہے تو یہ دھوکہ ہمیشہ کے لیے آپ کے ساتھ ہوتا ہے۔ میں اکیلا نہیں ہوں، میں جانتا ہوں جب میں یہ کہتا ہوں کہ رچرڈ گولڈسٹون میرا ہیرو ہے – ایک مضبوط، شاندار اور بہادر جج جنہوں نے مشرق وسطی میں صاحب اقتدار کے سامنے سچ بولا ۔ اور پھر ایک خوفزدہ سیاسی قیدی کی طرح اپنے کہے سے لوٹ گئے، اس قوم کے لیے جن کے جنگی جرائم وہ جرات مندانہ طور پر سامنے لائے۔
اب کئی سالوں کی خاموشی کے بعد جس شخص نے اسرائیل اور حماس کی دو ہزار آٹھ اور نو میں جنگ غزہ کے بعد سے ان کے ناقابل معافی پرتشدد کارروائیوں کی مخالفت کی۔ جنوبی افریقہ کے یہودی جج گولڈسٹون کی اسرائیل اور ان کے حلیفوں نے بطور ”برائی” اور ”غدار جو مقبوضہ قوتوں کا ساتھی” مذمت کی تھی جب انہوں نے غزہ کے فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم (تقریبا تیرہ سو ہلاک، جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی) اور حماس کے تعداد میں کم جرائم (تیرہ اسرائیلی ہلاکتیں، ان میں سے تین عام شہری اور کئی فلسطینی ”جاسوسوں” کی موت)۔ برینڈیز یونیورسٹی کے پروفیسر ڈینیل ٹیرس نے جو اپنے قانون اور اخلاقیات پر مہارت کی وجہ سے مشہور ہیں اپنی نئی کتاب کو دی ٹرائلز آف رچرڈ گولڈسٹون کا نام دیا ہے۔ اچھا عنوان مگر زیادہ پرتعش نہیں۔
ٹیریس منصفانہ ہیں۔ شاید وہ کچھ زیادہ ہی منصفانہ ہیں۔ انہوں نے بہت اس مضمون کا جو گولڈسٹون نے واشنگٹن پوسٹ کے لیے لکھا پر نرمی دکھائی ہے جس میں جج نے اپنی ہی رپورٹ کی تحقیق اور نتائج کو مؤثر طریقے سے کمزور کردیا ہے جو انہوں نے اور تین دیگر نے غزہ کی جنگ کے بارے میں لکھی تھی۔ یہ کتاب یاد دلاتی ہے کہ کس طرح پرنسٹن میں قانون کے پروفیسر اور غزہ اور مغربی کنارے میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی سابق رپورٹیر رچرڈ فاک نے گولڈسٹون کی اپنے موقف سے واپسی کو "اس طرح کے ایک معزز بین الاقوامی ملازم کے لیے ایک ذاتی حادثہ" قرار دیا۔ مجھے لگتا ہے کہ فاک صحیح تھا۔
لیکن ٹیریس کی کتاب کے مضامین فلسطینیوں کے سانحے کی بجائے اس اپنے ذاتی سانحے کے گرد گھومتے ہیں، جن میں سے کئی نے غزہ پہنچنے پر گولڈسٹون پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ان کے خاندانوں کے قتل کے بارے میں بتایا۔ مثال کے طور پر، وئیل السمونی نے خود گولڈسٹون کو ان کی دیوار پر لگی انفرادی تصاویر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح اسرائیلی فوج نے ان کے خاندان کے ان 23 ارکان کو ہلاک کیا۔ ٹیریس لکھتے ہیں کہ "گولڈسٹون اس درد سے بری طرح متاثر ہوئے۔" جیسا کہ وئیل نے اپنی بات مکمل کی دونوں میں کوئی بھی اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکے، اور دونوں نے ایک دوسرے کو پرآشوب آنکھوں کے ساتھ گلے لگا لیا۔"
تو یہاں ایک فلسطینی تھا جو کئی دسوریوں کی طرح گولڈسٹون پر ایمان رکھتا تھا۔ ابتدائی طور پر، بعض اسرائیلیوں نے بھی ان کی آمد کا خیر مقدم کیا: وہ جنوبی افریقہ کی یہودی برادری کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ ایک معزز وکیل اور جج بھی تھے۔ اس کے علاوہ، وہ سابق یوگوسلاویا کے لیے انٹرنیشنل کرمنل ٹرائبیونل کے چیف پراسیکیوٹر تھے۔
دی ہیگ میں اپنے آخری ایام میں، میں نے گولڈسٹون سے بڑی لمبی بات کی اور ان سے جنگی جرائم اور قتل عام کے درمیان فرق کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے مجھ سے کہا "مجھے لگتا ہے کہ میں فطری طور پر مثبت سوچ رکھتا ہوں۔ "مجھے بلکل شک نہیں ہے کہ دنیا بھر میں کسی بھی ملک میں اکثریت مہذب، اچھے لوگ ہیں، برے لوگ نہیں۔ برے لوگ ہیں بہت کم تعداد میں ہیں جو بہت زیادہ نقصان کرتے ہیں ... میں برے رہنماؤں کے بارے میں بات نہیں کر رہا ہوں۔ میں عام لوگوں کے بارے میں بات کر رہا ہوں جو خوفناک جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں: وہ ڈرتے ہیں کہ اگر وہ نہ ماریں تو وہ اپنے ملک میں مارے جائیں گے یا انھیں ملک سے نکال دیں گے۔ تمہیں یہ کہنا ہے کہ 'یہ لوگ ہمیں مارنے جا رہے ہیں، یہ لوگ ہمیں ہمار گھروں اور ہماری زمینوں سے فارغ کر دیں گے، اصل میں انہیں یہاں رہنے کا حق نہیں ہے اور یہاں تک کہ یہاں ہونے کی لائق بھی نہیں ہیں۔”
جب گولڈسٹون نے اقوام متحدہ کے لیے غزہ کی انکوائری کی قیادت کے لیے رضامندی ظاہر کی تو، 13 سال بعد میں نے ان الفاظ کو دوبارہ پڑھا۔ فلسطینوں کے ساتھ بات کرنے کے لیے جب وہ غزہ گئے تو کس طرح کتی سوچ رکھتے تھے؟ اسرائیلیوں نے ان کی تحقیقات میں حصہ لینے سے انکار کر دیا، اگرچہ انفرادی سطح پر اسرائیلیوں نے جنیوا میں اقوام متحدہ میں ثبوت دینے کے قابل تھے۔
ہیگ میں ہماری بحث کا ایک اور پہلو بھی تھا، جب گولڈسٹون نے تمام متاثرین کے لیے انصاف کے حصول کی ضرورت کے بارے میں مجھ سے بات کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ "یہ سرکاری طور پر تسلیم کرنا ہے کہ ان متاثرین کے ساتھ کیا ہوا۔" انہوں نے کہا: "آپ چاہتے ہیں کہ معاشرہ آپ سرکاری طور پر تسلیم کرئے کہ آپ کے ساتھ کیا ہوا ہے۔" لیکن میں نے ان سے ترکی کے ہاتھوں میں 1915 کی آرمینا میں نسل کشی کے بارے میں پوچھا؟ انہیں مسٹر جسٹس گولڈسٹون جیسا ٹربیونل اب نہیں مل سکتا؟ انہوں نے فوری طور پر جواب دیا "ٹھیک ہے، انہیں یہ نہیں ملا۔ کشتی ان کی بندرگاہ میں نہیں آئی۔" میں نے کہا یہ ایک مشکل فیصلہ تھا. گولڈسٹون نے جواب دیا: "لیکن یہ سچ ہے۔" وہ انصاف کے حقدار تھے لیکن ان کو نہیں دیا گیا تھا۔"
لہذا فلسطینی متاثرین کے غزہ میں چھوٹے پیمانے پر قتل عام اور ایک اسی تنازع کے چند اسرائیلی متاثرین کا کیا ہوگا؟ کیا گولڈسٹون کشتی کو ان کی بندرگاہ میں لے جائیں گے؟ کیا انہیں انصاف کی پیشکش کی جائے گی؟ فلسطینیوں نے ظاہر ہے امید کی کہ جج انہیں یہ پیش کریں گے۔ وہ جانتے تھے کہ وہ یہودی ہیں لیکن انہیں اس کی پرواہ نہیں تھی۔ انہوں نے یوگوسلاویا کے مقدمات میں ان کی جرات کے بارے میں سنا تھا۔
جو وہ نہیں جان سکتے تھے وہ تھا کہ خود انہیں بہادر لبرل جیسے کہ ایلن ڈارسووچ انہیں "برائی" کے طور پر یاد کریں گے۔ اور مجھے یاد آیا کہ 1996 میں دی ہیگ میں گولڈسٹون نے مجھ سے کہا۔ انہوں نے کہا کہ ”انصاف کی تلاش واحد ممکنہ طریقہ تھا جو گزشتہ نصف صدی میں 90 سے زائد جنگوں کے دوران خوفناک ظلم روکنے کے لیے...اگر بین الاقوامی مجرم رہنماؤں کو معلوم ہو کہ انہیں طلب کیا جا سکتا ہے، تو یہ اسے روکنے کا سبب ہوسکتا ہے۔”
لہذا آپ نے یہ کیا: کہ اب فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لئے، آج غزہ میں ان کے اعمال کے سلسلے میں اپنے افسران / فوجی/ جنگجوؤں/ گوریلاز پر اعلی عدالتوں میں مقدمات چلائے جاسکتے ہیں۔ 2009 میں گولڈسٹون کی حتمی رپورٹ نے کہا کہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں نے جنگ کے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے، کہ اسرائیل نے غیرمتوازن طاقت استعمال کی - جس کے نتیجے میں تیرہ سو کے مقابلے میں تیرہ اموات کی شرح کے فیصلہ سے مشکل سے بچا جاسکتا تھا - اور فلسطینی شہریوں اور شہری بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا تھا، اور عام شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کیاتھا۔ اس نے کہا کہ حماس اور دیگر گروہوں نے جان بوجھ کر اسرائیلی شہریوں کو نشانہ بنایا۔ ان کی تیسری فرجے کے ہتھیار اور اسرائیلی متاثرین کی چھوٹی تعداد ان کو نہیں بچا سکی۔
اس کے بعد گولڈسٹون کے خلاف بدزبانی شروع ہوی، ماضی سے زیادہ سخت، نفرت اور ذاتی حملوں پر مبنی۔
ان کی رپورٹ کے تین شریک مصنفوں کو بتائے بغیر، انہوں نے واشنگٹن پوسٹ کے لیے ایک مضمون لکھا جس نے ان کے تمام کاموں کو نقصان پہنچایا۔ اس مختصر مضمون کا لب لباب - پہلے سے ہی، اگر غیر معمولی طور پر نیویارک ٹائمز کی طرف سے مسترد کر دیا گیا تھا کہ اسرائیل کی بعد ازاں تحقیقات (جس نے، گولڈسٹون انکوائری میں مدد سے انکار کر دیا تھا) اشارہ کیا ہے کہ "شہریوں کو پالیسی کے تحت جان بوجھ کر کسی حد تک نشانہ بنایا گیا تھا۔"
لیکن یہ وہی نہیں ہے جو اصل رپورٹ نے کہا ہے۔ اس نے کہا کہ اسرائیل نے جان بوجھ کر شہریوں کی ذلت اور انہیں دہشت زدہ کرنے کے لیے بلاتقریق اور عدم توازن کے ساتھ قوت کا استعمال کیا۔ جو جنگی جرم بنتا ہے۔ اگرچہ گولڈسٹون نے بڑے پیمانے پر اس حقیقت کو نظر انداز کیا، اسرائیلی فوجیوں نے خود انکشاف کیا تھا کہ انہیں نئی فوجی پالیسی کے حصے کے طور پر، اپنی زندگی کو شہریوں کے مقابلے میں زیادہ اہم سمجھنے کا کہا گیا تھا۔ اسرائیلی کابینہ کے ایک وزیر نے اصل میں کہا تھا کہ غزہ میں اسرائیلی فوج "جنگلی" ہوگئی تھی۔
یہ "ارادے" کے بارے میں نہیں تھا۔ یہ شہریوں کی بڑے پیمانے پر ایسی حکمت عملی کے ذریعے قتل عام کے بارے میں تھا جو کہ ناگزیر طور پر اور ناقابل یقین حد تک خون خرابا بن جاتا ہے۔
بعد میں گولڈسٹن کے دوستوں نے مجھے بتایا کہ ان پر اسرائیل اور ان کے اپنے خاندان کے ارکان کی طرف سے "تکلیف دہ" زور دیا گیا تھا، اور وہ ذاتی طور پر انتہائی دباؤ میں تھے۔ اسرائیلیوں نے اپنے فوجیوں کے رویے کے بارے میں انکوائری سے گولڈسٹون پر اثر ڈالا گیا، جس میں سے ایک فوجی اس وقت بے نقاب ہوگیا جب غزہ میں اس پر ایک کریڈٹ کارڈ چوری کرنے کا الزام لگایا تھا۔
میں اس وقت مشرق وسطی کے بارے میں اپنی اگلی کتاب کے بارے میں تحقیق کر رہا تھا اور میں نے گولڈسٹون کو لکھا اور پوچھا کہ کیا وہ مجھے بتایں گے کہ اس کی رپورٹ کے بعد ان پر کیا گزری۔ انہوں نے ایک خوشگوار اور دوستانہ پیغام میں جواب دیا کہ انہوں نے کئی سالوں کے دوران میرے کالم کو "بہت تعریف" کے ساتھ پڑھا، لیکن انہوں نے غزہ کی رپورٹ پر انٹرویوز کی تمام درخواستوں پر انکار کر دیا تھا اور اس بابت یہی ان کی پالیسی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو استثنا دینا درست نہیں ہوگا اور غصے کا سبب بنے گا۔ ٹھیک ہے، انہوں نے ڈینیل ٹیریس کے لیے ایک استثنا ضرور دیا - اور ٹھیک کیا۔ گولڈسٹون سانحے کے لیے فسک کے ایک یا دو باب نہیں، ایک مکمل کتاب جائز ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ٹیرس خود جانتے ہیں کہ گولڈسٹون کو جو پسند ہو ویسی سنہری حروف میں تعریف مشکل ہے۔
ٹیرس لکھتے ہیں کہ "مشن کے دور رس نتائج کو ایک طرف رکھتے ہوئے انہوں نے جنگ کے قوانین پر کا جائزہ لینے کا موقع ملا۔ گولڈسٹون کی رپورٹ " غیرمعمولی جنگ کے پیچیدہ حالات میں شہری زندگی کی حفاظت کے بارے میں مشکل سوالات سامنے لائی۔"
اس طرح کی اور بھی باتیں ہیں۔ مجھے شک ہے کہ اگر الوئل السمونی کو اپنے خاندان کے قتل میں کوئی بات بہت پیچیدہ یا "غیرمعمولی" پایا ہوگا۔ اور نیورمبرگ کے ججوں کو جنگ کے قوانین اور "nuances" پر زیادہ وقت خرچ کرنے کی ضرورت تھی۔
درحقیقت گولڈسٹون کو جنوبی افریقہ کی یہودی برادری نے ہراساں کیا تھا۔ انہیں اپنے پوتے کے بار میں جانے پر پابندی عائد کر دی گئی جو بعد میں اٹھا لی گئی تھی۔ انہیں ہیبرو یونورسٹی کے بورڈ آف گورنرز سے ہٹا دیا گیا تھا۔ اور ان کے خاندان خصوصا ان کی بیٹی نیکول پر بھی جنہیں ٹیریس نے اپنی کتاب میں کٹر یہودی لکھا تھا پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔
اسرائیلیوں کے خلاف نازی مددگار کے الزام کے علاوہ اسرائیل پریس نے مہم شروع کی کہ جج گولڈسٹون نے اپنے آبائی جنوبی افریقہ میں، جہاں وہ سیاہ فام شہریوں کو نسلی امتیاز کے قوانین سے بچانے کے لیے اپنی پوری کوشش کی تھی، سیاہ فاموں کی سزائے موت کی حمایت کی تھی۔ انہیں " پھانسی جج" کہا گیا تھا۔ ٹیریس نے ان واقعات کی بالکل واضاحت نہیں کی، ماسوائے اس اشارے کہ ان سزاؤں پر عمل درآمد نہیں ہوا تھا۔ یقینی طور پر گولڈسٹون نے دی ہیگ میں اپنی تقرری سے پہلے یا غزہ کی رپورٹ کے رہنما کے طور پر ان سزائے موت کے بارے میں انٹرویوز میں یا اعلانات میں ذکر نہیں کیا۔
میں ابھی بھی گولڈونسٹ کے لیے بہت افسوس محسوس کرتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ تھا - اور ہے - ایک اچھا اور شریف آدمی۔ لیکن میں فلسطینی شہریوں کے لیے بہت شدید افسوس محسوس کرتا ہوں جو اسرائیلیوں کے گولوں، راکٹوں اور گولیاں سے بےحد مصیبت کا شکار رہے تھے۔ ان کی بعد میں "مشکلات" کے مقابلے میں، انہوں نے گولڈسٹون سے کہیں زیادہ برداشت کیا۔
عوامی صفائی ایک چیز ہے۔ جہنم مکمل طور پر مختلف۔ انہوں نے نرم، سوچدار، قانونی اور معزز شخص پر اعتماد کیا جو انہیں انصاف دینے کے لیے غزہ آیا۔ اور انہیں انصاف دینے کے بعد گولڈسٹون نے ان سے یہ انصاف چھین کیا۔ یہاں تک کہ اوبامہ کی حکومت نے گولڈسٹون رپورٹ کو دبانے کی کوشش کی۔ افسوسناک طور پر، خود کو فلسطینی "اتھارٹی" کہلوانے والے محمود عباس نے بھی یہی کیا۔
فلسطینیوں کو اکثر دھوکہ دیا گیا ہے۔ اور اب بھی گولڈسٹون کی طرف سے بھی۔ یہ واقعی ایک سانحہ ہے۔ ان کی سوانح عمر لکھنے والے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ وہ جج ہیں "جس نے قانون کی کززوریوں کو سمجھا۔"گولڈسٹون نے "انصاف کے مستقبل کے لیے ایک راستہ تیار کیا۔" تاہم فلسطینیوں کے لیے نہیں۔