نیویارک میں ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر وزیراعظم عمران خان نے مشرق وسطیٰ میں تناؤ ختم کرنے کی سفارتی کوششوں کا آغاز کیا۔ اس سلسلے میں وزیراعظم نے گذشتہ دنوں تہران اور ریاض کے مختصر دورے کیے۔
قابلِ غور سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ گھمبیر مسائل اتنی آسانی سے حل طلب ہیں؟ کیا ہمارے اپنے نازک حالات ہمیں سفارت کاری کے اس دقیق میدان میں جانے کی اجازت دیتے ہیں؟ کیا ہماری قیادت کے پاس اتنا زادِ راہ اور ملک کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ گھر کے مسائل نظر انداز کرکے بیرون ملک یکسوئی سے کوئی کام کر سکیں؟
ان سوالات کے جوابات کے لیے ہمیں تھوڑی گہرائی میں جانے کی ضرورت ہے۔ اول یہ کہ ثالثی سے کیا مراد ہے۔ سفارتی زبان میں ’ثالثی‘ ایک عمل ہے جس کے تحت کوئی ایک فریق دیگر فریقین کو کسی باہمی سمجھوتے تک پہنچنے میں مدد کرتا ہے۔ ثالثی کے عمل میں ایک باقاعدگی اور نظم پایا جاتا ہے۔ ثالث ایک مکمل غیر جانبدار فریق اور سہولت کار کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ عمل دنوں سے لے کر سالوں تک بھی جاری رہ سکتا ہے۔ اس تناظر میں حکومت کے لیے اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ کیا ہم ان نامساعد معاشی حالات میں اتنا وقت اور وسائل مہیا کر سکیں گے۔
دوم یہ کہ وزیراعظم کی کاوشوں کو پہلے دن سے ہی ایک دھچکا لگ چکا ہے۔ تہران میں ان کی ملاقاتوں کے فوراً بعد سعودی وزیر خارجہ نے کہہ دیا کہ ریاض نے اسلام آباد سے ثالثی کی کوئی درخواست نہیں کی۔ اس سے قبل امریکہ نے بھی اسی طرح کا بیان دیا۔ ابتدا میں عمران خان نے کہا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شہزادہ محمد بن سلمان نے ان سے مدد کی درخواست کی تھی لیکن بعد میں جب فریقین نے اس دعوے کی تردید کی تو پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا کہ یہ وزیراعظم کی خود سے پہل اور اپنا اقدام ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ نے بھی یہ کہہ کر کہ انہیں اس ثالثی کا کوئی علم نہیں، چنداں کسر نہ چھوڑی۔ دوروں کے بعد ایک انٹرویو میں عمران خان نے پھر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نام لیا۔ ان متضاد بیانات کے بعد وزیراعظم کی ثالثی کی حیثیت قدرے کمزور دکھنے لگی ہے۔
سوم یہ کہ امریکہ اور ایران کے تعلقات کی موجودہ پیچیدگیاں ثالثی کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں بین الریاستی رابطوں کا سب سے اہم کھلاڑی امریکہ ہی ہے۔ امریکہ و ایران کے باہمی تعلقات میں بہتری کے بغیر سعودی ایران تعلقات معمول پر لانے کی سعی بیکار ثابت ہوگی۔ گذشتہ سال امریکہ کی ایرانی جوہری معاہدے سے دستبرداری اور ایران پر اقتصادی پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کے بعد دونوں کے تعلقات مزید ابتر ہوگئے ہیں۔
ستمبر میں سعودی ارامکو کپمنی کی تیل کی تنصیبات پر حملوں کے بعد تناؤ میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اب امریکہ سعودی عرب میں پہلے سے موجود تین ہزار امریکی فوجیوں کے علاوہ مزید کمک وہاں بھیج رہا ہے۔ مزید برآں اسرائیل، شام، لبنان اور یمن وغیرہ کے بارے میں دونوں ممالک کی متضاد پالیسیاں طویل المیعادی مسائل ہیں جن کا مستقبل قریب میں کوئی حل بظاہر ممکن نظر نہیں آتا۔
چہارم یہ کہ سعودی عرب اور ایران کے بیچ ہر میدان میں ناقابلِ عبور اختلافات اور گہری تفاوت نظر آتی ہے جسے دور کرنا تقریباً ناممکنات میں سے ہے۔ ایران کے انقلاب کے بعد روایتی عرب و عجم دشمنی فرقہ وارانہ کشمکش میں ڈھل گئی۔ دونوں ریاستیں الگ الگ جغرافیائی و سیاسی دھڑوں میں بٹی ہوئی ہیں۔ دونوں شام اور یمن اور خطے کے دیگر ممالک کے مسائل پر ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا تے ہیں۔ دونوں ملکوں کے تعلقات معمول پر لانے کے لیے ان تنازعات کا حل ضروری ہے لیکن فی الوقت امریکہ ایرانی کشیدگی میں کمی تو شاید کسی طرح ممکن ہو، مذہبی فرقہ بندی کے باعث سعودی ایران تعلقات میں بہتری کا دور تک کوئی شائبہ نہیں۔
پاکستان کے لیے چیلنج
بظاہر لگتا ہے کہ جولائی اور ستمبر میں واشنگٹن اور نیویارک کے دوروں میں کچھ مخصوص حلقوں کی طرف سے مشرقِ وسطیٰ کی دلدل میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے عمران خان کی خوب حوصلہ افزائی کی گئی۔ اگر اس کے پیچھے کچھ پوشیدہ محرکات ہیں تو آشکار ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔ اپنے جوش و جذبے کی رو میں وزیراعظم نے یہ بیڑا اٹھا تو لیا ہے لیکن ان کو جلد ہی معلوم ہوجائے گا کہ یہ شغلِ سہل نہیں۔ درحقیقت پاکستان کے ایران اور سعودی عرب سے تعلقات کی نوعیت اس کارِ دقیق سے موافقت نہیں رکھتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سلسلے میں پہلا سوال یہ ہے کہ آیا پاکستان ان دونوں ممالک کے بیچ ایک حقیقی غیرجانبدار ثالث کے طور پر دیکھا جائے گا؟ ایرانی انقلاب کے بعد سے سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات میں پاکستان ایران تعلقات سے کہیں زیادہ گرم جوشی رہی ہے۔ پاکستان روایتی طور پر سعودی عرب سے مالی امداد اور تیل کی درآمدات پر موخر ادائیگیوں پر انحصار کرتا ہے۔ 25 لاکھ سے زیادہ پاکستانی وہاں روزگار کے سلسلے میں رہائش پزیر ہیں۔ سعودی عرب میں مقامی افواج کی تربیت کے لیے پاکستانی فوجی دستے مدت سے تعینات ہیں۔ پاکستان کے سابق سپہ سالار سعودی عرب میں ایستادہ اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ ہیں۔ اس کے علاوہ بے شمار شعبوں میں دونوں ممالک میں گہرے روابط ہیں۔
دوسری طرف پاکستان اور ایران کے تعلقات اگرچہ خوشگوار اور دوستانہ ہیں لیکن ہمسایہ ممالک کے فطری مسائل کا شکار بھی ہیں۔ انہیں ایک دوسرے پر شک ہے کہ وہ ان متشدد گروہوں کی حمایت کرتے ہیں جو سرحد پار سرگرم ہیں۔ پاکستان میں پراکسی فرقہ وارانہ تنازع عرصے سے جاری ہے۔ باہمی اقتصادی تعلقات بھی کمزور ہیں۔ گیس پائپ لائن سمیت کئی منصوبے عمل درآمد کے منتظر ہیں۔ ایران میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کا اٹوٹ اتحادی ہے۔ ایسے حالات میں تہران میں اسلام آباد کی سفارتی کوششوں کے مثبت نتائج کا امکان بہت کم ہے۔
80 کی دہائی سے مشرقِ وسطیٰ میں ثالثی کے لیے پاکستان کی طرف سے کم از کم چار کوششیں کی گئی تھیں۔ ان میں سب سے پہلے ایران عراق جنگ میں اور پھر 1998 میں اسلامی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر اسلام آباد میں سعودی عرب اور ایران کی قیادت کی ملاقات کرائی گئی۔ سابق صدر پرویز مشرف نے بھی کوششیں کیں لیکن زیادہ کامیابی نہ ملی۔
سب سے تازہ کوشش 2016 میں کی گئی جب سعودی شیعہ عالم باقر النمر کی سزائے موت کے نتیجے میں کشیدگی میں اضافے کے بعد پاکستان نے ثالثی کی پیشکش کی لیکن اس میں بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ ان ساری کوششوں کی ناکامی سے بظاہر نئی اور ناتجربہ کار قیادت نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ جس سرعت سے وزیراعظم نے اس کام کا بیڑا اٹھانے کی حامی بھری، اس سے یہ بھی ممکن ہے کہ پچھلے ریکارڈ سے استفادہ ہی نہ کیا گیا ہو۔
دو اور پہلو غور طلب ہیں۔ پہلا یہ کہ کیا ہمارے اپنے خطے میں امن و امان کی صورت حال اتنی خوش آئند ہے کہ ہم دوسرے علاقوں کے حالات سدھارنے کی کوشش کریں؟ دوسرا یہ کہ جب پاکستان کے اندرونی سیاسی اور معاشی مسائل بڑھتے جا رہے ہیں تو کیا وزیراعظم کو اپنے وقت اور ملک کے قیمتی وسائل کسی غیریقینی نتائج کے حامل منصوبوں پر صرف کرنے چاہییں؟
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مضبوط معیشت کے بغیر خارجہ پالیسی بھی نتیجہ خیز نہیں ہوتی۔ کیا ان دگرگوں حالات میں مناسب ہے کہ وزیراعظم گذشتہ 30 دنوں میں سے 15 دن ملک سے باہر رہیں۔ ملکی مسائل کی بڑی وجہ پی ٹی آئی کا غیر سنجیدہ رویہ، ناپختہ طرزِ حکمرانی اور کمزور پالیسی سازی ہے۔ ان حالات میں پُرجوش وزیراعظم کو کچھ وقت گھر بیٹھ کر عوام کو درپیش انتظامی اور معاشی مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کا مشورہ پیش کرنا لازم ٹھہرتا ہے۔
بہرحال پاکستان میں بہت دلوں کی خواہش ہے کہ وزیراعظم کی سعی کامیاب ہو۔ مشرقِ وسطیٰ میں کسی قسم کی کشمکش خصوصاً ایران اور سعودی عرب کے درمیان چپقلش اس خطے اور خاص طور پر پاکستان کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ سعودی عرب اور ایران دونوں پاکستان کے دیرینہ عزیز اور قریبی دوست ہیں۔ اگر ہماری قیادت کی کوششوں کی وجہ سے ان کے باہمی تعلقات بہتر ہو جائیں تو ہمارے لیے باعث صد افتخار و مسرت ہوگا۔