سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں ایک نیا پنڈورا باکس کھلنے کو ہے۔
قاضی صاحب کے وکیل منیر اے ملک نے گذشتہ سماعت میں ریفرنس کم پروپیگنڈا زیادہ کے معاملے پر عدالت کی توجہ دلائی۔
اُس دن تو اٹارنی جنرل سکون سے کارروائی سنتے رہے لیکن اگلے دن جب منیر اے ملک نے عدالت سے کہا کہ ان کے موکل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک سربمہر بیانِ حلفی دینے کو تیار ہیں جس میں وہ ایسے واقعات بتائیں گے کہ ان کے اور ان کے گھر والوں کی جاسوسی کیسے کی گئی اور کیسے ان کی ذاتی معاملات کی مخبری کی گئی، تو اٹارنی جنرل اچھل پڑے اور انہوں نے سخت الفاظ میں ایسے کسی بھی بیانِ حلفی کی شدید مخالفت کی۔
سوال یہ ہے کہ کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ محض کیس کو لٹکانے کے لیے ایسے معاملات عدالت کے سامنے اٹھا رہے ہیں یا پھر واقعی ججوں کی جاسوسی کی گئی یا اب بھی کی جارہی ہے؟ (ہمیں امید ہے کہ ایسا نہیں کیا جا رہا ہوگا، لیکن اگر ایسا ہے تو یہ بات قابلِ افسوس ہے)۔
اس ملین ڈالر سوال کا جواب دو ہی فریق دے سکتے ہیں۔ یا تو وہ جس نے جاسوسی کی (جو کبھی اعلان نہیں کرے گا کہ ہاں میں نے جاسوسی کی یا کروائی) یا پھر جس کی جاسوسی کی گئی (بشرطیکہ انہیں علم ہو کہ ہاں میری نگرانی کی جا رہی تھی)۔
پہلی صورت تو ناممکن ہے کہ کوئی ریاستی ادارہ اس الزام کو تسلیم کرلے کہ وہ ججوں کی جاسوسی کرتا ہے۔ رہ گئے جج تو وہ خود ہی بتا سکتے ہیں کہ انہیں کب اور کیسے یہ محسوس ہوا کہ ان کی نگرانی کی جا رہی ہے۔ کون ہے جو ان کے ذاتی معاملات کو مسلسل مانیٹر کر رہا ہے۔
جج بتا سکتے ہی نہیں بلکہ بتا رہے ہیں کہ ان کے ذاتی اور گھریلو معاملات کی مانیٹرنگ اور جاسوسی کی جا رہی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تو اس حوالے سے کھل کر سوال اٹھائے ہیں۔ جیسا کہ یہ سوال اٹھایا گیا کہ جسٹس صاحب کی بیگم کے مالی معاملات، لندن پراپرٹیز کی خبر سمیت دیگر الزامات کے ثبوت شکایت کنندہ صحافی ڈوگر کے پاس کیسے آئے جب کہ وہ کبھی لندن نہیں گئے؟ حکومت نے جج صاحب اور ان کے گھر والوں کا سفری ریکارڈ پیش کیا ہے۔ کیا حکومت بتائے گی کہ وہ جج اور ان کے گھر والوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھی؟
جسٹس قاضی فائز نے تو اب یہ الزام بھی عائد کر دیا ہے کہ ان کی اہلیہ اور بچوں کی لندن میں جائیدادوں، لندن میں جسٹس صاحب کی فیملی کی مصروفیات پر نظر رکھنے کے لیے ایک برطانوی نجی فرم کی خدمات لی گئیں۔ جج صاحب کے وکیل نے یہ بھی کہا کہ وہ یہ یقینی طور پر تو نہیں کہہ سکتے کہ جاسوسی کے لیے کون سے ذرائع استعمال ہوئے، ہوسکتا ہے کہ ان کے فون ٹیپ کیے گئے یا پھر ان کی ای میلز ہیک کی گئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگر تو سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز کا بیانِ حلفی لے لیا اور اس میں جن بھی اداروں یا شخصیات پر جاسوسی کا الزام سامنے آیا، ان سے جواب طلب کر لیا تو یہ صدارتی ریفرنس ایک نئی شکل اختیار کرلے گا۔ عین ممکن ہے کہ بالاخر 12 سال بعد ایک بار پھر اس بحث کا آغاز ہو جائے کہ آیا ملکی سکیورٹی کے مختلف ادارے پاکستانی اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے ذاتی، گھریلو اور مالی معاملات کی نگرانی کرتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو کیا قانون انہیں اس کی اجازت دیتا ہے؟ اگر نہیں تو آیا ایسے جاسوسی کے معاملات میں کوئی تادیبی کارروائی کی جا سکتی ہے؟
آج سے 12 سال پہلے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو اُس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے اختیارات کے غلط استعمال کا الزام لگا کر جبری چھٹی پر بھیج دیا تھا۔ دو جولائی 2007 کو چوہدری صاحب کا معاملہ سپریم کورٹ کا 13 رکنی بینچ سن رہا تھا کہ ججوں کے سامنے حکومتی وکیل نے ثبوت رکھ دیے۔ پڑھنے والوں کو مشورہ ہے کہ اُس دن سپریم کورٹ کی کارروائی، خاص طور پر ڈان اخبار کے کورٹ رپورٹر ناصر اقبال کی رپورٹنگ ضرور دیکھیں تو عدالت کے اندر کا ماحول سمجھ آ جائے گا۔ حکومتی نمائندے نے ججوں کے سامنے جو ثبوت رکھے، وہ افتخار چوہدری کے گھر کے اندر کی چند تصاویر تھیں جو خفیہ طور پر لی گئی تھیں جبکہ ٹیلی فون پر کی جانے والی متنازع گفتگو کا متن بھی شامل تھا۔ ظاہر ہے یہ کالز ٹیپ ہوئی تھیں۔
جب صدارتی ریفرنس بنانے والے، ججوں کی ذاتی زندگی اور مالی معاملات پر ثبوت دیتے ہیں تو شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ لامحالہ یہ سوال اٹھے گا کہ کیا آپ اس جج کی کڑی نگرانی کر رہے تھے؟ کیا آپ جاسوسی کر رہے تھے؟ قصہ مختصر یہ کہ 2007 کے اُس بینچ کے سربراہ جسٹس خلیل الرحمٰن رمدے نے انٹیلی جنس بیورو کو یہ حکم جاری کیا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے دفاتر اور گھروں سے جاسوسی کے تمام آلات ہٹائے جائیں۔ ججوں کی جاسوسی کے معاملے پر سب سے بڑی دلیل تو خود سپریم کورٹ کا یہ حکم نامہ ہے جو ریکارڈ پر موجود ہے۔
ایک سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ اکثر نجی محافل میں یہ قصہ سناتے ہیں کہ کیسے ایک بار حساس ادارے کے دو افسر ملاقات کے لیے آئے، لیکن جب انہوں نے جج صاحب کے والد کا مکمل نام اور ذات برادری کا تعلق واسطہ پوچھا تو انہوں نے بن بلائے اُن مہمانوں کو یہ کہہ کر رخصت کر دیا کہ ایک معمولی سی تحقیق سے بھی ان سوالات کے جواب مل سکتے ہیں، آپ انٹیلی جنس کے لوگ ہیں، جب ذاتی حیثیت میں ملنا ہو تو ڈھنگ کے سوال تیار کرکے آئیں۔
اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تعیناتی ان کی سکیورٹی کلیئرنس سے مشروط ہوتی ہے۔ ایسی کلیئرنس میں حاصل کی گئی معلومات بھی انتہائی رازداری سے جمع کی جاتی ہیں۔ یہ ایک معمول کا عمل ہے مگر ایک حاضر سروس جج کی جاسوسی سراسر بدنیتی پر مبنی عمل ہے۔ جسٹس ریٹائرڈ شاہ خاور اس حوالے سے خاصے سنجیدہ شکوے رکھتے ہیں۔ میں نے شاہ صاحب سے جب ان کے ذاتی تجربات پوچھے تو وہ بلاجھجک بتانے لگے کہ ’بالکل، ججوں کی مصروفیات اور نجی زندگی کی بھی سرویلینس ہوتی ہے۔ ججوں کی زندگی کو ’چَیز‘ (Chase) کیا جاتا ہے، اب چاہے اسے سکیورٹی کا نام دیں یا کچھ بھی۔‘
جسٹس ریٹائرڈ شاہ خاور نے تو یہاں تک کہا کہ ’ججوں کی نگرانی تو اس حد تک ہوتی ہے کہ کون ان کے گھر آیا، کون کہاں گیا، ان کی ٹائمنگ تک نوٹ کی جاتی ہیں۔‘ شاہ صاحب نے کہا کہ یوں تو کسی بھی شہری کی جاسوسی کرنا غلط ہے مگر ادارے سرویلینس اُن کی کریں جو ریاست پاکستان کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں۔ ’جج تو آئین و پاکستان سے وفاداری کے حلف بردار ہوتے ہیں، ان کی جاسوسی کرنا دراصل ریاست کا عدلیہ پر عدم اعتماد ظاہر کرتا ہے۔‘
سندھ ہائی کورٹ بار تو پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ ججز اور ان کے بیوی بچوں کی خفیہ نگرانی غیرقانونی ہے۔ یہ تو ججز کو بلیک میل کرنے کا ایک لائسنس ہے۔
ادھر شاہ خاور صاحب کی تشویش بھی بالکل بجا ہے۔ میرے خیال میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جاسوسی کے جو حالیہ الزامات لگائے ہیں اور جو انکشافات ان کے وکیل نے کیے ہیں، اس کے بعد دیگر ججوں میں بھی بےچینی عروج پر ہوگی۔ ظاہر ہے نوعیت مختلف ہوسکتی ہے مگر ہتھیار تو سب ججوں کے خلاف ایک ہی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ اکثر کھلی عدالت میں یہ فقرہ دہرایا کرتے تھے کہ ’اعلیٰ عدلیہ کے جج شیشے کے مچھلی گھر میں رہ رہے ہوتے ہیں، وہ خود شاید باہر نہ دیکھ پائیں مگر دیکھنے والے ان کی ایک ایک حرکت کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔‘ اسی بات پر ہمارے دوست حسنات ملک سے خاصی دیر میری بحث رہی۔ حسنات کا کہنا ہے کہ ’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا یہ کیس اب دیگر ججوں کے لیے سبق ہے کہ وہ اپنے نجی اور مالی معاملات میں غیرمعمولی حد تک محتاط رہیں، نہ صرف یہ کہ جج اپنا ریکارڈ منظم رکھیں بلکہ اپنی بیگمات اور بچوں کے بھی معاملات میں محتاط رہیں۔‘
فون کالز، واٹس ایپ گروپس، غیرملکی دورے، دوستوں، اقربا اور عزیزوں سے ملاقاتیں، اپنے اور بچوں کے بینک اکاؤنٹس اور جائیدادوں کی تفصیل، ہمارے معزز جج صاحبان یقیناً پہلے ہی ان معاملات میں بہت پھونک پھونک کر قدم اٹھاتے ہوں گے، اب مزید محتاط ہوجائیں گے۔ مگر یہ ملک کے بڑوں کے سوچنے کی بات ہے کہ اگر ججوں پر نظر رکھنے کی یہ رِیت ایسے ہی جاری رہے تو پھر بلاخوف و خطر انصاف پر مبنی فیصلے بھی ایک خواب ہی ہو جائیں گے۔
جج بلیک میلنگ سے ڈر جائیں تو سب سے پہلی موت انصاف کی ہوگی۔
یہ تحریر مصنفہ کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔