پاکستان فوج نے کہا ہے کہ آزادی مارچ کے حوالے سے حکومت آئین اور قانون کے تناظر میں جو فیصلہ کرے گی اس پر عمل ہو گا۔
ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل آصف غفور نے جمعے کی رات اے آر وائی سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ ملکی استحکام کو کسی بھی صورت نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اس سے قبل جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے وزیر اعظم عمران خان کو مستعفیٰ ہونے کے لیے دو دن کی مہلت دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ ایسا نہ ہونے کی صورت میں وہ آئندہ کا لائحہ عمل بنائیں گے۔
اسلام آباد کے سیکٹر ایچ نائن میں آزادی مارچ کے لیے مختص جلسہ گاہ میں خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ حکومت گھر جائے اور اس سے کم پر بات نہیں ہوگی۔
مولانا فضل الرحمٰن خطاب کرنے سٹیج پر آئے تو انھوں نے شرکا کو دیکھتے ہوئے کہا: ’ہم پُرامن لوگ ہیں اور چاہتے ہیں کہ امن کے دائرے میں رہیں ورنہ اسلام آباد کے اندر عوام وزیراعظم کو گھر کے اندر سے بھی گرفتار کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔‘
انھوں نے کسی بھی ادارے کا نام لیے بغیر کہا: ’ہم اداروں کے ساتھ تصادم نہیں چاہتے، اداروں کو طاقت ور دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اداروں کو غیر جانب دار بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔‘
مولانا کے بیان کے بعد میجر جنرل آصف غفور نے ردعمل میں کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن سینیئرسیاست دان ہیں، وہ بتائیں کس ادارے کی بات کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا فوج نے الیکشن میں آئینی اور قانونی ذمہ داری پوری کی، اپوزیشن اپنےتحفظات متعلقہ اداروں میں لےکرجائیں۔ ’ہماری سپورٹ جمہوری طورپرمنتخب حکومت کےساتھ ہوتی ہے، یوں سڑکوں پر آ کر الزام تراشی نہیں کرنی چاہیے۔‘
انہوں نے کہا اس وقت ملک کسی انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ملکی استحکام کو نقصان پہنچانے کی اجازت دی جا سکتی ہے، حکومتی اور اپوزیشن کمیٹیاں بہترین تعاون کےساتھ چل رہی ہیں۔
ردعمل میں مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ آئی ایس پی آر نے واضح کر دیا میں نے کس ادارہ کی بات کی ہے۔ ان کا اصرار تھا کہ اداروں کو خود کو سیاست سے دور رکھنا چاہیے کیونکہ وہ اداروں سے تصادم نہیں چاہتے۔
مولانا فضل الرحمٰن کے الٹی میٹم پر وزیر دفاع اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی سے مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے کہا اگر جے یو آئی ف نے انتظامیہ کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کی تو قانون خود حرکت میں آئے گا۔
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے گفتگو میں پرویز خٹک نے کہا معاہدے کی خلاف ورزی کوئی بھی کرے، قانونی چارہ جوئی ہوگی۔
انہوں نے بتایا کہ کل کور کمیٹی کے اجلاس میں موجودہ صور تحال پر بات ہوگی، تمام صورت حال وزیراعظم عمران خان خود مانیٹر کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا دھمکیاں دینے والے لکھ کرکچھ دیتے ہیں، زبانی کچھ کہتے ہیں، لہذا ان پرکیا اعتماد کریں؟ اگر یہ معاہدہ توڑتے ہیں تو تباہی کے ذمے دار یہ خود ہوں گے۔
’ہم نے معاہدہ کیا ہوا ہے اس کی پاسداری کریں گے، ہم نے کوئی ڈیل نہیں کرنی، معاہدے کی پاسداری ہوگی۔‘
مولانا فضل الرحمٰن کے خطاب کے دوران آج سٹیج پر ان کے ہمراہ بلاول بھٹو زرداری، محمود خان اچکزئی، خواجہ آصف، احسن اقبال سمیت کئی دیگر سیاسی قائدین موجود تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تقریر کے دوران انھوں نے مزید کہا: ’اگر ہم محسوس کریں کہ اس ناجائز حکومت کی پشت پر ہمارے ادارے ہیں، اگر ہم محسوس کریں کہ ان ناجائز حکمرانوں کا تحفظ ہمارے ادارے کر رہے ہیں تو پھر دو دن کی مہلت ہے، پھر ہمیں نہ روکا جائے کہ ہم اپنے اداروں کے بارے میں کیا رائے قائم کرتے ہیں۔‘
ان کے خطاب کے دوران شرکا نے ڈی چوک، ڈی چوک کے نعرے لگائے جس پر مولانا فضل الرحمن نے کہا یہ سب نواز شریف، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری سمیت تمام سیاسی قائدین نے سن لیا ہے لیکن ’جنہیں ہم سنانا چاہتے ہیں وہ بھی سن لیں۔‘
مولانا فضل الرحمن گذشتہ رات گئے آزادی مارچ کا قافلے لے کر اسلام آباد پہنچے تھے جبکہ ایک اور قافلہ پشاور سے اکرم خان درانی کی سربراہی میں آیا۔
نمازِ جمعہ کے بعد سیاسی قائدین کے خطاب کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا اور ان میں پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری شامل تھے۔
شہباز شریف نے اپنے خطاب میں آئندہ کے لائحہ عمل پر تو کوئی بات نہیں کی تاہم اپنی پوری تقریر میں وہ اپنے دورِ حکومت کا موجودہ حکومت کے ساتھ موازنہ ضرور کرتے رہے۔
دوسری جانب بلاول بھٹو نے حکومت اور اس کی پالیسیوں کو آڑے ہاتھوں لیا اور کئی سوالات بھی اٹھائے۔ ان کا کہنا تھا: ’یہ کیسی آزادی ہے کہ بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو اور بھارتی پائلٹ کا انٹرویو تو چلایا جا سکتا ہے لیکن آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کی پریس کانفرنس تک نہیں چلائی جا سکتی۔‘
بلاول بھٹو نے کہا وہ مولانا فضل الرحمٰن کے ہر جمہوری قدم میں ان کے ساتھ ہیں۔
واضح رہے اس سے قبل وزیر اعظم عمران خان نے اپنے دورہِ گلگت کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ’ایک آزادی مارچ اسلام آباد میں بھی ہو رہی ہے، ان سے پوچھا جائے کہ وہ آزادی کس سے چاہتے ہیں۔‘
’میں میڈیا والوں سے کہتا ہوں کہ وہ مائیک لے کر جائیں اور پوچھیں کہ وہ کس سے آزادی چاہتے ہیں۔ آپ ن لیگ والوں سے پوچھیں گے تو انھیں پتہ ہی نہیں ہو گا کہ وہ اس مارچ میں کیوں ہیں۔ جے یو آئی ۔ ف والے کہیں گے یہودی اسلام آباد پر قبضہ کرنے والے ہیں۔‘