ہانگ کانگ یونیورسٹی میں محصور جمہوریت کے حامی مظاہرین نے پولیس سے بچنے کے لیے پیر کی صبح کیمپس کے مرکزی داخلی دروازے کو آگ لگا دی۔
پولیس افسروں نے یونیورسٹی میں محصور مظاہرین کو دھمکی دی تھی کہ اگر ان پر جان لیوا ہتھیاروں سے حملہ ہوا تو وہ ردعمل میں گولیاں برسا دیں گے۔
تقریباً پچھلے چھ ہفتوں سے جاری بحران نے مزید سنگین پرُتشدد موڑ اختیار کر لیا ہے۔
چین نے 75 لاکھ آبادی والے شہر میں آزادنہ الیکشن سمیت مظاہرین کے تمام اہم مطالبات کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا ہے۔
بیجنگ نے متعدد بار خبر دار کیا ہے کہ وہ کسی صورت بغاوت کو برداشت نہیں کرے گا اور شہر میں جاری ہنگامہ آرائی ختم کرنے کے لیے اس کی براہ راست مداخلت کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔
پیر کی صبح کئی بلند آواز دھماکے سنے گئے جس کے بعد ہانگ کانگ پولی ٹیکنیک یونیورسٹی کے مرکزی داخلی دروازے میں آگ لگ گئی۔
اے ایف پی رپورٹرز کے مطابق یونیورسٹی میں موجود مظاہرین نے یہ آگ پولیس سے بچنے کے لیے لگائی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پولیس کا کہنا ہے کہ پیر کی صبح مظاہرین کے ٹھکانے پر تین گولیاں فائر کی گئیں جو بظاہر کسی کو نہیں لگیں۔
اتوار کو بھی شہر بھر میں پرتشدد جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا ، جہاں کولون ضلعے میں پولیس مظاہرین پر آنسو گیس جبکہ مظاہرین پولیس پر پیٹرول بموں کی بارش کرتے رہے۔
اس دوران کیمپس میں محصور مظاہرین کے دفاع کے لیے بھی کالیں دی جاتی رہیں۔
مظاہرین نے پولیس کی جانب سے واٹر کیننز سے کی جانے والے پانی کی بوجھاڑ سے بچنے کے لیے چھتریاں اٹھائی ہوئی تھیں جبکہ وہ آتش گیر مادے سے پولیس کی بکتر بند گاڑیوں پر حملے بھی جاری رکھے ہوئے تھے جس سے کیمپس کے قریب فلائی اوور پر آگ بھڑک اٹھی۔
پولیس نے فیس بک لائیو پر یونیورسٹی کو فسادات کا گڑھ قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ بلوائیوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور اس جرم کی سزا کم از کم دس سال قید ہو گی۔
پولیس ترجمان لوئس لاؤ کا کہنا تھا: ’میں یہاں بلوائیوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ پیٹرول بموں کا استعمال نہ کریں اور پولیس کو تیروں یا دیگر مہلک ہتھیاروں سے نشانہ نہ بنائیں۔‘
’اگر وہ اس خطرناک روش سے باز نہ آئے تو ہمارے پاس ان کو جواب دینے کے لیے اسلحہ اور بارود کے استعمال کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچے گا۔‘
ہانگ کانگ پولیس کے پاس مہلک اسلحہ موجود ہوتا ہے تاہم انہوں نے اسے مظاہرین کے خلاف چند ہی مواقعے پر استعمال کیا ہے۔ اب تک تین افراد گولیوں کا نشانہ بنے ہیں تاہم ان کی حالت خطرے سے باہر تھی۔
پولیس پیٹرول بموں کے مقابلے میں ربڑ گولیوں، واٹر کینن اور آنسو گیس کا استعمال کرتی ہے، تاہم اس بار پولیس نے اسلحہ اور بارود کے استعمال کی دھمکی دی ہے جس سے صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
گذشتہ ہفتے ہانگ کانگ میں ہونے والے مظاہروں کے دوران ایک شخص سر میں اینٹ لگنے سے ہلاک ہو گیا تھا۔
سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیو میں ایک معمر خاکروب سر پر مبینہ طور پر نقاب پوش مظاہرین کی جانب سے پھینکی گئی اینٹ سے ہلاک ہوا۔ اسے ان مظاہروں میں پہلی ہلاکت قرار دیا گیا۔
ہانگ کانگ میں احتجاج رواں سال جون میں اس وقت شروع ہوا جب مشتبہ مجرموں کو مقدمات کا سامنے کرنے کے لیے چین بھیجنے کا ایک نیا قانون متعارف کروانے کی کوشش کی گئی۔
اس متنازع بل کوبعد میں منسوخ کر دیا گیا لیکن احتجاج تاحال جاری ہے اور مظاہرین کے مطالبات میں ہانگ کانگ کے لیے مزید آزادیوں کا مطالبہ بھی شامل ہو چکا ہے۔