وزیر اعظم عمران خان اور فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان پچھلے ہفتے تقریباً چار گھنٹے کی طویل ملاقات ایک طرح سے عمران حکومت کے لیے ایک اہم موڑ ہے۔ اس ملاقات کی تفصیلات اور اس میں اٹھائے جانے والے موضوعات اس طرح غیرمعمولی ہیں کہ یہ پنڈی اور بنی گالہ کے تعلقات کو کسی خاص اور حتمی شکل میں ڈھال سکتے ہیں۔
دیکھنے میں عمران حکومت سے پنڈی کی توقعات غیر معمولی نہیں۔ کابینہ کے تین چار وزرا کی تبدیلی، وزیراعظم ہاؤس کے سرکردہ بیوروکریٹس کے نکمے پن پر کارروائی اور ان کے متبادل کی تعیناتی، پنجاب میں بزدار کے تباہ کن نظام کی بجائے موثر حکمرانی کرنے والے سیٹ اپ کا آغاز اور وزیر اعظم کی طرف سے بردباری و سیاسی دانش مندی کا ایسا مظاہرہ جو اوسط معیار پر پورا اترے۔ اس کے علاوہ معیشت کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر مزید پردہ ڈالنے کے بجائے کچھ ایسے اقدامات جن سے عوام کی تکلیف میں کمی ہو، بھی ان توقعات اور خواہشات کا اہم حصہ ہیں۔
پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ عمران حکومت سے چھوٹے موٹے نتائج کی توقع اس وجہ سے نہیں کر رہی کہ وہ اب بھی عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کے سحر میں مبتلا ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی تنگی حکومت کے نکمے پن سے براہ راست جڑ چکی ہے۔ پنجاب میں انتظامی تباہی، بگڑتی ہوئی معیشت اور عوامی حالاتِ زندگی میں خطرناک گراوٹ ان تمام حلقوں کو متاثر کر رہی ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے کارکنان کی معاشرتی بنیاد ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے افسران اپنے ادارے کے وسیع وعریض نیٹ ورک کے ذریعے اب عوام کی ان چیخوں کو بخوبی سن سکتے ہیں جن کا تذکرہ ان کو آج سے چند ماہ پہلے ناگوار خاطر گزرا کرتا تھا۔
معیشت کی بنیادیں درست کرنے کے نام پر جو ہولناک تباہی عوام کی زندگیوں میں داخل کر دی گئی ہے اس کی بہت سی ذمہ داری عوامی آرا کی منڈی میں اب اسٹیبلشمنٹ پر ڈالی جاتی ہے۔ آپ مالکان کے ذریعے میڈیا کو خاموش کر سکتے ہیں مگر گلی میں بجنے والا عوامی نقارہ کسی کے کنٹرول میں نہیں۔ جوں جوں عمران حکومت اپنی نااہلی ثابت کرتی ہے، توں توں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف فریاد بڑھتی چلی جاتی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کا دوسرا مسئلہ ریاست کے ان گھمبیر امتحانوں سے متعلق ہے جن پر توجہ دینے کے لیے ان کے پاس وقت کم ہے۔ وقت کی یہ قلت اُس وقت بدترین کوفت میں تبدیل ہو جاتی ہے، جب اسٹیبلشمنٹ کو بہت سے ایسے کام کرنے پڑتے ہیں جو اصل میں حکومت کی ذمہ داری ہیں۔ عمرانی تجربے کی بنیاد اس مفروضے پر رکھی گئی تھی کہ بہت سا کام عمران خان اور ان کی ٹیم انقلابی جذبے کے تحت کر پائیں گے اور اس طرح بڑے ریاستی امور پر اسٹیبلشمنٹ خود سے توجہ دے کر ملک کے لیے ایک آئیڈیل صورت حال بنا پائے گی۔ یہ نہ ہوا۔ عمران خان حکومت نے اپنے حصے کی نمازیں اور روزے اسٹیبلشمنٹ کے گلے میں ڈال دیے۔ اب مصیبت یہ ہے کہ حکومت کا یہ طور طریقہ مستقبل قریب میں تبدیل ہوتا نظر نہیں آتا۔
تیسرا مسئلہ عمران خان کی بعض معاملات پر غیر معمولی اور سنگدلانہ قسم کی ہٹ دھرمی ہے۔ وزیر اعظم اہم اور پیچیدہ سیاسی معاملات اور حساس موضوعات پر بعض اوقات غیر رسمی رویہ اپناتے ہوئے فیصلہ سازی ایسے افراد کے ہاتھوں میں دے دیتے ہیں جن پر ایک دھیلے کا اعتماد کرنا بھی ممکن نہیں۔ ان کے گھر سے سیاسی فیصلے، بیوروکریسی کے اندر تعیناتیوں اور تبادلوں کی اکھاڑ پچھاڑ اور ذاتی مراسم کے ذریعے ٹھیکے دینے کا مبینہ عمل جاری ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس کی سربراہی ایسے بیوروکریٹس کے ہاتھ میں ہے جو صرف اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے پورے نظام کو کاٹھ کا الو بنائے ہوئے ہیں۔
سب سے بڑھ کے پنجاب میں بزداری نظام قائم رکھنے کا اصرار۔ وزیر اعظم عمران خان بزدار کو کسی طور تبدیل کرنے کو تیار نہیں۔ ان کو سیاسی استخاروں کے ذریعے یہ بتا دیا گیا ہے کہ بزدار گیا تو وہ خود بھی پھسل جائیں گے۔ ہر قسم کا دانش مندانہ استدال استخاروں کی چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتا ہے۔
مگر پچھلے چند ہفتوں میں ان سلگتے ہوئے معاملات پر تیل ڈالنے کا عمل نواز شریف کے ملک سے جانے کے معاملے پر شروع ہوا۔ اگرچہ تمام تر طبی حقائق وزیر اعظم عمران خان کے سامنے بار بار رکھے گئے لیکن وہ ہر مرتبہ نواز شریف کے طبی علاج کی ضرورت پر ان کے جیل میں گلنے سڑے کی خواہش کو ترجیح دیتے رہے۔ آخر میں جب یہ فیصلہ ہوگیا کہ نواز شریف کی حالت غیر ہونے اور ان کے ساتھ کوئی بڑا سانحہ بننے کا رِسک پاکستان کے اندرونی حالات کو ایک نہ ختم ہونے والے بھنور میں ڈال سکتا ہے تو انہوں نے بادل نخواستہ اس فیصلے کو مان لیا۔ مگر ان کے اندر پکنے والا لاوا تمام تر تدابیر، ہدایت، معلومات، تحمل اور سیاسی رواداری کی درخواستوں کو نگلتا ہوا ان کی حالیہ تقاریر کی صورت میں اس بری شکل میں سامنے آیا ہے کہ ان کے بہترین مدد گاروں کے سر بھی جھک گئے ہیں۔
عمران خان کی طرف سے پچھلے ہفتے نواز شریف کی بیماری کا تمسخر اور اس سے پہلے ڈاکوؤں کو نہ چھوڑنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے عدالت عظمی سے سینگ لڑانے والے بیانات کا عمومی تجزیہ تو یہ ہے کہ وہ غصے اور جھنجھلاہٹ میں ہر طرف لاتیں اور گھونسے رسید کر رہے ہیں اور اس عمل میں سیاسی چھوٹے پن کا وہ معیار مقرر ہو رہا ہے جو جلد یا بدیر ان کے اپنے گلے میں پڑ سکتا ہے۔ مگر حقیقت اس سے ذرا مختلف اور گہری ہے۔
جب عمران خان عدالت عظمیٰ کے سربراہ کو منصفی کے معیار سے متعلق لیکچر دیتے ہیں تو وہ اصل میں یہ شکوہ بیان کر رہے ہیں کہ ان کے مخالفین کی سیاست بدری کا جو وعدہ ان سے کیا گیا تھا وہ پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ جس انداز سے انہوں نے نواز شریف کی بیماری کو ایک ناٹک قرار دیا اور ملک سے باہر جانے والے طیارے سے لے کر قانونی تیاری تک ہر پہلو پر تھو تھو کی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ وہ اس فیصلے کو خود پر مسلط کیے جانے کی شکایت کر رہے ہیں۔ ایسے فیصلے ہو جانے کے بعد ان کا بھرم رکھنے کی ذمہ داری ہر فریق پر عائد ہوتی ہے۔
لیکن وزیر اعظم عمران خان نے بھرم دو تقریروں کے جھٹکوں میں توڑ دیا اور یہ واضح کر دیا کہ وہ اس فیصلے سے کتنے ناخوش ہیں۔ ان کا غصہ، کوفت، الجھنیں، پھنکاریں مار کر یہ کہہ رہا ہے کہ مجھ سے یہ کام کروایا گیا۔ ان کا حدف نہ تو نواز شریف ہے اور نہ عدالتیں۔ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ پنڈی کے جن پتوں پر انہوں نے تکیہ کیا تھا انہوں نے ان کو ہوا دی اور وہ اس سے بہت نالاں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگر اس قسم کے اعتراضات کسی ایسی حکومت کی طرف سے آئے ہوں جو اپنے کام میں یکتا اور ایک مضبوط سیاسی وکٹ پر کھڑی ہو تو شاید معاملات کوئی اور رخ اختیار کریں۔ مگر یہ جانتے ہوئے کہ حکومتی امور کے تمام پرچوں میں انتہائی رحم دلانہ چیکنگ کے باوجود ان کا نظام پاس ہونے کی فیصدیت سے کہیں نیچے ہے، عمران خان کی طرف سے عوام کے سامنے ایسے معاملات پر واویلا جن کو وہ نجی اجلاسوں میں مان چکے ہیں ایک عجیب و غریب صورت حال کو جنم دے رہا ہے۔
اس وقت پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی دونوں طرف سے دھلائی ہو رہی ہے، ایک طرف بگڑتی ہوئی ملکی و معاشی صورت حال کا ڈھول ان کے گلے میں پڑا روزانہ بجتا ہے اور یہ الزام بار بار دہرایا جاتا ہے کہ وہ عمرانی تجربے کے موجد ہیں۔ دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان منہ پھلائے ناراض بچے کی طرح ہر جگہ یہ تاثر دیتے پھر رہے ہیں کہ ان کی مرضی کے خلاف نواز شریف کو ملک سے باہر بھیجا گیا۔ اس طوفان عجب بدتمیزی کے درمیان پاکستان کی کشتی ہے جو ہر نئے دھچکے سے کبھی ادھر اور کبھی ادھر ڈول رہی ہے۔
یہ ایک بھیانک تعطل کی کیفیت ہے جس میں ملک بری طرح پھنس چکا ہے۔ ایک طرف عمران خان ہیں جو اپنے طور طریقے، اپنے مزاج، اپنے سیاسی اقدار اور گفتگو کے لہجے میں کوئی مثبت تبدیلی لانے پر مائل نہیں ہیں۔ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ ہے جو اس حکومت کے ساتھ ایک پیج پر ہونے کی ایک بھاری قیمت چکا رہی ہے۔
ایسے حالات تو پرچون کی ایک دکان کو بھی تباہ کر دیتے ہیں۔ پاکستان تو ایک نیوکلیئر ملک ہے جس کے لچھے دار مسائل بڑے بڑے دانش مندوں کو چکرا دیتے ہیں۔ پریشانی یہ ہے کہ یہ نظام کیسے چلے گا؟ اس کے ساتھ حیرانی یہ بھی ہے کہ اس کو بنانے والے بناتے وقت کیا سوچ رہے تھے؟