عجب گھمبیرتا ہے کہ کسی کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ سب ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ ٹی وی سکرینوں پر بیٹھے تجزیہ نگار بھی اور ہر چند روز بعد حکومت اور سیاست کی توتا فال نکالنے والے بھی۔
حالات ایسی تیزی سے پلٹا کھاتے ہیں کہ لگتا ہے عظیم تجزیہ نگار بننے کے لیے یو ٹرن لینے کی عادت اپنانی پڑے گی۔ حالات و واقعات کا ایک رخ بھانپتے ابھی تجزیے کا پہلا پتہ ہی پھینکا ہوتا ہے کہ اگلے ہی لمحے معلوم پڑتا ہے سب چوپٹ ہو گیا جو سوچا تھا وہ نہ ہوا اور جو نہ سمجھا تھا وہ ہو گیا۔
اب مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کے قصے کو ہی لے لیجیئے۔ کیسی ہا ہا کار مچی تھی اکتوبر میں کہ بس اب تو حکومت چند دن کی مہمان رہ گئی آج گئی کہ کل۔ لیکن کل ہی کل میں ایسی بازی پلٹی کہ جس تیزی برق رفتاری سے مولانا ہوا کے گھوڑے پر سوار اسلام آباد پہنچے تھے اس سے کہیں تیزی سے اب غائب ہیں۔
کیا دن تھے کہ روزانہ مولانا اپنا جلوہ جاہ و جلال کے ساتھ دکھاتے اور جوشیلی بھڑکیلی تقریروں سے نہ صرف کارکنان کا جوش گرماتے بلکہ عمران مخالفین کے دلوں میں بھی نئی جوت جگا دیتے۔ روزانہ شام کو ٹی وی سکرینوں پر مولانا کے جماعتی و حمایتی رونق لگا کر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ جہاں ’استعفیٰ لے کر جائیں گے‘ کی لن ترانی گوش گزار ہوتی وہیں کچھ شگفتہ چٹکلے بھی دل بہلائے رکھتے۔ اب نہ وہ مولانا رہے نہ وہ انقلاب۔
جمیعت نے تو اپنا دھرنا ایسی تیزی سے لپیٹا کہ جیسے نماز کے بعد چوری کے ڈر سے مسجد میں صفیں لپیٹ کر کونے کھدروں میں دبا دی جاتی ہیں۔ اسلام آباد کے بڑے انقلاب کے چھوٹے چھوٹے ساشے پیک بنا کر ملک بھر میں تقسیم کر دیے گئے لیکن اب ان ساشے پیکٹوں میں موجود چورن بھی ختم ہو رہا ہے سو خبریں ہیں کہ پلان بی بھی اب لپیٹا جا رہا ہے۔
مولانا نے جز وقتی سیاسی کامیابی تو حاصل کی کہ اپوزیشن کے موجودہ خلا کو پر کر دیا لیکن طویل المیعاد اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اب آئندہ مولانا یا اپوزیشن کی کسی بھی جماعت نے حکومت مخالف تحریک نکالنے کے بارے میں سوچا بھی تو آزادی مارچ کا انجام آئینے کی صورت سامنے کھڑا ہو گا۔
ن لیگ تو خیر ویسے بھی ڈرائنگ روم پارٹی بن چکی بلکہ اب تو نفلی پارٹی کا نام دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ جو کارکن سوشل میڈیا پر ہیں وہ وہیں اور جو نہیں ہیں وہ جھولی بھر بھر کر اپنے محبوب قائد کے لیے دعائیں اور حکومت وقت کے لیے بد دعائیں اور کوسنے دینے پر اکتفا کریں۔ یہی لیگی کارکن کا حتمی انقلاب ہے۔
پیپلز پارٹی سندھ سے باہر نہ تو تحریک چلانے کی سکت رکھتی ہے اور نہ ہی موڈ میں ہے۔ ویسے بھی جب تک عمران خان ہیں وہ ازخود حکومت بھی ہیں اور اپوزیشن بھی۔ گریں گے تو اپنے ہی بوجھ سے، سنبھلیں گے تو اپنے ہی قدم سے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپنے 6 نومبر کے کالم بعنوان ’عمران خان کو چلنے دیں‘ میں یہی کچھ عرض کیا تھا جو آج ہو رہا ہے۔ یہی کہا تھا کہ عمران استعفیٰ نہیں دیں گے، مولانا گھر کو جائیں گے اور نواز بھی سدھار جائیں گے۔ فی الحال تو پی ٹی آئی ووٹر سمیت خود عمران خان بھی نواز شریف کے یوں اچانک چلے جانے سے غصے اور بے یقینی کی کیفیت میں ہیں اور کچھ روز مزید اس کا بوجھ سہاریں گے لیکن حالات کی گرد بیٹھے گی تو عمران خان مزید مضبوط ہو کر ابھریں گے۔
مولانا کے ادھورے آزادی مارچ اور نواز کے بیرون ملک چلے جانے سے عمران خان کے ہاتھ ہی مضبوط ہوئے ہیں یہ چند روز بعد واضح ہو جائے گا۔ بہت لوگوں کی نظریں اب نومبر کے اختتام پر ہیں کہ دیکھئیے یہاں سے کیا اشارہ ملے لیکن قرین قیاس یہی ہے کہ یہ نظام یوں ہی چلتا رہے گا نہ صرف اندرونی حالات بلکہ کئی گھمبیر بیرونی معاملات بھی اشارے یہی دے رہے ہیں۔ گورننس اور معیشت صرف یہی دو معاملات اس نظام کو کمزور کر سکتے ہیں اور حکومت کو بھی۔ عوام نے ن کو بھی آزما لیا پی پی پی کو بھی، پی ٹی آئی کے پہلے سال کی کارکردگی مایوس کن ضرور رہی ہے لیکن وقت ابھی بھی حکومت کے ہاتھ سے پھسلا نہیں۔
ابھی بھی عمران خان چاہیں تو ٹرن اوور کر سکتے ہیں۔ نواز شریف کی بڑی سیاسی غلطی رہی کہ دو تہائی مینڈیٹ ملنے کے باوجود توجہ صرف اور صرف عوامی مسائل کی طرف مرکوز رکھنے کی بجائے پرویز مشرف کیس کا کھونٹا اٹھا کر گلے میں باندھ لیا۔ عوام حکمرانوں کو ووٹ اپنے ذاتی یا سیاسی مخالفین سے انتقام کا نہیں بلکہ اپنی دگرگوں حالت میں تبدیلی کا دیتے ہیں۔ عمران خان کو تو نہ صرف اپنے ووٹر کا مینڈیٹ بلکہ مقتدر حلقوں کا بھی بھرپور اعتماد حاصل ہے تمام تر افواہوں اور سرگوشیوں کے باوجود۔ عوام نے عمران خان کو ووٹ دیا تبدیلی کے نعرے پر نہ کہ احتساب کے نعرے پر۔ لیکن اگر نہ احتساب ہوتا نظر آئے نہ عوام کی زندگی میں تبدیلی آئے تو پھر عوامی غصے کا سامنا کرنے کے لیے بھی حکمرانوں کو تیار رہنا چاہیئے۔
جس غصے کا اظہار وزیر اعظم صاحب نے نواز شریف کی روانگی پر دو دن کی چھٹی کے بعد کیا، اسی غصے کو چینل کریں، درست سمت دیں اور بقول آپ کے جو چور ڈاکو عوام کا پیسہ لوٹ کر کھا گئے اسی عوام کو ریلیف دلوائیں۔ اس غصے کو اپنی کمزوری کا اظہار نہیں اپنی طاقت بنائیں۔ آپ کے سامنے ابھی لمبی اننگز پڑی ہیں۔ ابھی شاید صرف ایک میچ ہارے ہیں سیریز ابھی باقی ہے۔ حکومت کے دوسرے سال کا آغاز کر چکے ہیں۔ اسی سال کے دوران اگر آپ نے عوام کو مہنگائی بیروزگاری بے یقینی سے ریلیف دے دیا تو پھر آپ کے سیاسی حریف چاہے ملک میں رہیں یا ملک سے باہر، آپ کو پریشان نہیں کر پائیں گے کیونکہ عوام صرف آپ کے گن گائیں گے۔ لیکن اگر خدانخواستہ اسی دوسرے سال میں بھی عوام کی حالت بد سے بد تر اور بدترین ہوتی چلی گئی تو پھر رن آؤٹ ہونے کے خدشات بڑھتے ہی چلے جائیں گے۔ اس لیے وزیر اعظم صاحب، غصہ تھوک دیجیئے، بیٹ اٹھائیے اور گورننس کی کریز پر چوکوں چھکوں کی بہار لگا دیں اور پھر دیکھیں عوام کیسے تا عمر آپ کو کندھوں پر اٹھائے رکھیں گے۔