صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے لڑکیوں کی تعلیم کی حوصلہ افزائی کے لیے دور دراز علاقوں کے سرکاری سکولوں کی طالبات کے لیے مفت آمدورفت شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
یہ ٹرانسپورٹ سہولت چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعت کی ان طالبات کے لیے ہو گی جن کا گھر سکول سے ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
صوبائی حکومت نے متعلقہ اضلاع کی خواتین ضلعی افسران کو ایک مراسلہ جاری کیا ہے جس کے مطابق وہ اس سہولت کے حوالے سے بچیوں کے والدین سے بات کر کے ان کی رضا مندی حاصل کریں۔
مراسلے کے مطابق یہ سہولت کوہستان پائین، کوہستان بالا، کولائی پالس، تورغر، ہنگو، ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت، چارسدہ، کوہاٹ اور بنوں میں دی جا رہی ہے۔
مراسلے کے مطابق سہولت سے فائدہ اٹھانے والی سکولوں میں زیر تعلیم چھٹی، ساتویں اور آٹھویں کی طالبات، سکول سے دوری کی وجہ سے سکول نہ آنے والی طالبات اور چھٹی جماعت میں نئی داخل شدہ طالبات ہوں گی۔
مراسلے کے مطابق یہ پروگرام صوبائی پراجیکٹ امپلیمینٹیشن یونٹ کی تحت چلایا جائے گا جس کے لیے ڈرائیور بھرتی کیے جائیں گے۔
وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعت بیرسٹر محمد علی سیف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بھیجے گئے ایک بیان میں اس پیش رفت کو تعلیم کے شعبے میں ایک اہم اقدام قرار دیتے ہوئے بتایا کہ ’اس منصوبے کا مقصد غریب والدین پر معاشی بوجھ کم کرنا اور داخلہ مہم کو موثر بنانا ہے۔‘
پاکستان الائنس فار گرلز ایجوکیشن کی 2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں تعلیم حاصل کرنے کی عمر کی 20 لاکھ سے زائد بچیاں کبھی بھی سکول نہیں گئیں۔ یہ شرح تقریباً 39 فیصد بنتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پرائمری درجے میں یہ شرح 32 فیصد، ہائی سکول میں یہ شرح 46 فیصد جبکہ ہائر سیکنڈری درجے پر یہ شرح 61 فیصد ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سروے رپورٹ میں بتایا گیا کہ 26 فیصد لڑکیاں غربت کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہیں جبکہ 28 فیصد سروے میں شامل والدین نے بتایا کہ ان کے بچوں کی عمر ابھی کم ہے، اس وجہ سے سکول نہیں جا رہے۔
ضلع لوئر دیر کے ڈپٹی ایجوکیشن افیسر وجیح الدین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہمارے ہاں سکولوں میں یہ بات درست ہے کہ بعض بچیاں ٹرانسپورٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے سکول نہیں آتیں۔‘
وجیح الدین نے بتایا کہ ’پہاڑی علاقوں میں اکثر پرائمری سکول ہوتا ہے لیکن پرائمری کے بعد مڈل سکول پانچ چھ کلومیٹر دور ہوتا جس کی وجہ سے والدین ٹرانسپورٹ کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتے اور بچیاں تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔‘
پشاور میں تعلیم کے شعبے میں کام کرنے والے سماجی کارکن اور غیر سرکاری انلائٹ لیب نامی تنظیم کے سربراہ شفیق گگیانی نے بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف سکول کی بچیاں ہی نہیں بلکہ صوبے میں مجموعی طور خواتین کو نقل و حرکت میں مشکلات کا سامنا ہے۔
شفیق گگیانی نے بتایا کہ ’یونیورسٹی کی سطح پر یہ سہولت بعض اضلاع میں موجود ہے لیکن سکول کی سطح پر یہ منصوبہ صوبے کے تمام اضلاع میں ہونا چاہیے۔‘