اپوزیشن جماعتوں نے اسلام آباد میں منگل کی شام ایک اجلاس میں حکومت سے قبل از وقت انتخابات کو آئینی مطالبہ قرار دیتے ہوئے اس کے انقعاد کا مطالبہ کیا ہے۔
حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی کانفرنس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ’کانفرنس میں 4 نکاتی ایجنڈے پر جدوجہد جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا، تمام اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا ہوگا جبکہ الیکشن ہمارا آئینی مطالبہ ہے اس پر کوئی مفاہمت نہیں ہوگی۔‘
انہوں نے کہا کہ 'الیکشن کمیشن کے اراکین سے متعلق تین رکنی کمیٹی تشکل دے دی گئی ہے، کمیٹی ممبر الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کے نام تجویز کرے گی اور آئین و قانون کے مطابق اپوزیشن نام حکومت کے سامنے پیش کرے گی۔'
اس اجلاس میں تمام اپوزیشن جماعتوں کے مرکزی رہنماؤں کو دعوت دی گئی تھی، تاہم قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف لندن میں اپنے بھائی میاں نواز شریف کے ساتھ ہونے کی وجہ سے شریک نہیں ہو سکے ہیں۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی کُل جماعتی کانفرنس میں شرکت سے معذرت کر لی تھی تاہم اے پی سی میں شرکت کے لیے چار رکنی اعلیٰ سطح کا وفد تشکیل دے دیا ہے، جس میں سینیٹر راجہ ظفر الحق، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال، سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور امیر مقام شامل تھے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی نئے انتخابات کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی الیکشن کے لیے تیار ہے اور اس بار وہ ’سلیکٹڈ نہیں بلکہ عوامی وزیر اعظم لانا چاہتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ اور سڑکیں بلاک کرنے کے پلان بی میں بڑی سیاسی جماعتوں کی نمایاں شرکت نہ ہونے پر اپوزیشن کے درمیان حکومت مخالف حتمی تحریک تو بظاہر دکھائی نہیں دیتی لیکن سربراہ جے یو آئی ف پھر بھی پُر امید ہیں کہ ان کے مطالبات اور دعوے ضرور پورے ہوں گے۔
اے پی سی کی ممکنہ حکمت عملی:
جمعیت علمائے اسلام کے ذرائع کے مطابق اے پی سی میں مولانا فضل الرحمٰن اب تک ہونے والی پیش رفت اور مختلف یقین دہانیوں سے متعلق اپوزیشن رہنماؤں کو اعتماد میں لیا جب کہ اس موقع پر چوہدری برادران کے ذریعے حکومت اور دیگر اعلیٰ شخصیات سے رابطوں میں انہیں کرائی گئی یقین دہانیوں کا جائزہ بھی لیا گیا۔
مولانا فضل الرحمٰن کامیابی کے حوالے سے پُر امید
مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے دیے گئے بیان کے مطابق وہ دسمبر میں اِن ہاؤس تبدیلی اور تین ماہ بعد نئے انتخابات دیکھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا تھا کہ ’انہیں دھرنا ختم کرتے وقت یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ دسمبر تک وزیراعظم عمران خان مستعفی ہوجائیں گے یا اِن ہاؤس تبدیلی آجائے گی۔‘
وہ یہ بیان بھی دے چکے ہیں کہ ’نہ وہ ایسے ہی اسلام آباد گئے تھے اور نہ ویسے ہی واپس آئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ دن اور انتظار کریں منظر نامہ واضح ہونا شروع ہوجائے گا۔‘
خیال رہے کہ وزیر اعظم عمران خان ایسے تمام خدشات کو مسترد کرچکے ہیں۔ انہوں نے کابینہ اجلاس اور اپنے خطاب میں واضح کیا تھا کہ حکومت کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں بلکہ فارن فنڈنگ کیس میں بھی پی ٹی آئی کو کوئی خطرہ نہیں۔
دوسری جانب حکومتی وزرا بھی اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج اور حکومت مخالف دعوؤں کی نفی کر رہے ہیں۔ معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے مطابق ’نئے انتخابات تو اب حکومتی مدت پوری ہونے کے بعد مقررہ وقت پر ہی ہوں گے جب کہ اِن ہاؤس تبدیلی کا دعویٰ کرنے والے سینیٹ میں بھی اپنی حیثیت دیکھ چکے ہیں اور آئندہ بھی آئینی وزیر اعظم کو ہٹانے کی کوشش کرنے والوں کو ناکامی کا سامنا کرنے پڑے گا۔‘