سپریم کورٹ نے واضح کر دیا ہے کہ اگر وفاقی حکومت چھ مہینوں میں پارلیمان سے آرمی چیف کی مدت ملازمت کے حوالے سے قانون سازی نہ کر سکی تو ادارہ جاتی روایت کے مطابق 29 نومبر 2016 سے اپنی تین سالہ مدت پوری ہونے کی وجہ سے جنرل قمر جاوید باجوہ ریٹائر تصور ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے پیر کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کیس پر 43 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا، جس کے مطابق قانون سازی میں ناکامی پر صدر مملکت کو وزیراعظم کی ایڈوائس پر نئے آرمی چیف کی تعیناتی کرنا ہو گی۔
فیصلہ جسٹس سید منصور علی شاہ نے تحریر کیا، جب کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اضافی نوٹ بھی شامل کیا ۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کے آغاز میں لکھا ہمارے سامنے سوال تھا کہ آیا حکومت قوانین سے بنتی ہے یا افراد سے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید لکھا کہ آرمی چیف کی تعیناتی ہر شہری کی زندگی، سلامتی اور آزادی سے جڑی ہے، لہٰذا یہ معاملہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
سپریم کورٹ کے مطابق قانون میں آرمی چیف کے عہدے کی کوئی مدت یا ریٹائرمنٹ کی تاریخ کا ذکر نہیں اور نہ ہی عہدے میں توسیع سے متعلق کوئی شق موجود ہے، ایسے میں حکومت کی جانب سے منظور کی گئی سمریاں بھی بظاہر بے معنی لگتی ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کروائی ہے کہ قانون میں سقم دور کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے گی، جس کے بعد عدالت یہ معاملہ پاکستانی عوام کے منتخب نمائندوں پر چھوڑتی ہے تاکہ وہ متعلقہ قانون سازی کر سکیں۔ ’اب ذمہ داری پارلیمان پر ہے کہ وہ اس معاملے کو دیکھے۔‘
فیصلے کے مطابق اٹارنی جنرل کی یقین دہانی اور عہدے کی اہمیت کو نظر میں رکھتے ہوئے یہ مناسب ہے کہ موجودہ آرمی چیف کو چھ مہینے مزید کام کرنے دیا جائے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے اضافی نوٹ میں جسٹس منصور علی شاہ کے تحریری فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے لکھا: ’ہمارے تاریخی پس منظرمیں آرمی چیف کئی لحاظ سے طاقت رکھتا ہے۔‘
انہوں نے لکھا کہ یہ حیران کن انکشاف ہوا کہ آرمی چیف کے عہدے کی مدت، توسیع اور دوبارہ تعیناتی قانون کے زیر سایہ نہیں۔
جسٹس کھوسہ نے اضافی نوٹ کے آخر میں برطانوی بادشاہ کنگ جیمز اول کے بارے میں دیے گئے اس وقت کے چیف جسٹس سر ایڈورڈ کوک کا ایک قول بھی نقل کیا: ’آپ جتنے بھی بڑے ہو جائیں، قانون آپ سے اوپر ہی رہے گا۔‘