اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت مسترد کر دی جس کے بعد ان کی رہائی کے امکانات ماند پڑ گئے ہیں۔
پیر کو جسٹس محسن اختر کیانی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے نواز شریف کی ضمانت کی استدعا مسترد کرنے کا فیصلہ سنایا۔
اس وقت نواز شریف کا علاج لاہور ہسپتال میں چل رہا ہے۔
نواز شریف کی بیماری
نواز شریف کی طبی رپورٹس کے مطابق انہیں چار بیماریاں ہیں جن میں عارضہ قلب، طویل مدتی گردے کی بیماری، ہائپرٹینشن اور ذیابیطس شامل ہیں۔
18 فروری، 2019 کو سات ڈاکٹرز پر مشتمل ایک ٹیم نے نواز شریف کے طبی معائنے کے بعد اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ نواز شریف کو انجائنا کی علامات کے باعث عارضہ قلب کے علاج (cardiac catherization) کی ضرورت ہے۔
ذیابیطس اور ہائپرٹینشن پر بورڈ کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں آنے کے بعد سے دونوں بیماریوں میں بہتری آئی ہے اور ان کی موجودہ ادویات میں معمولی تبدیلی کر دی گئی ہے۔ گردے کے مرض پر بورڈ کا کہنا تھا کہ فی الحال ان کی حالت مستحکم ہے۔
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے گذشتہ سماعتوں کے دوران عدالت کو بتایا تھا کہ ان کے موکل کے علاج کے لیے انہیں پرسکون ماحول کی ضرورت ہے۔ وکیل کے مطابق جیل میں رہ کر نواز شریف کو بہترین طبی سہولیات میسر نہیں ہو سکتیں کیوںکہ انہیں 24 گھنٹے نگرانی اور گھر جیسے ماحول کی ضرورت ہے جہاں انہیں وقت پر دوا دی جا سکے۔
اس کے برعکس نیب کے مطابق حکومت نواز شریف کو بہترین طبی سہولیات دے رہی اور ان کی جان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ نیب کا یہ بھی موقف تھا کہ نواز شریف کا معائنہ کرنے والے مختلف بورڈز نے یہ نہیں کہا کہ جیل میں رہنا نواز شریف کی جان کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے۔
نیب نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ موجودہ حالات اور قوانین میں بھی نواز شریف کے لیے علاج کے لیے ضمانت کا طریقہ کار موجود ہے۔ اس طریقہ کار میں جیل کا سپرینٹنڈنٹ اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اگر کسی قیدی کی طبیعت ناساز ہے تو اسے طبیعت کی غرض سے ضمانے پر رہا کر سکتا ہے۔ نیب کے مطابق جب بھی نواز شریف کی طبیعت ناساز ہوتی ہے تو انہیں فوراً ہسپتال منتقل کر دیا جاتا ہے۔
ضمانت مسترد ہونے کے بعد علاج کیسے ہوگا؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد نواز شریف کا علاج بدستور حکومت پاکستان کے مقرر کردہ ہسپتال میں ہوتا رہے گا۔ نواز شریف اس وقت بھی لاہور ہسپتال میں موجود ہیں۔
پاکستان جیل قوانین کے مطابق جیل کے سپرینٹنڈنٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ بوقت ضرورت کسی بھی قیدی کو ضمانت پر ہسپتال منتقل کر سکتا ہے، اور نواز شریف ابھی اسی قانون کے تحت لاہور ہسپتال میں موجود ہیں۔
اگر نواز شریف کو اسلام آباد ہائی کورٹ ضمانت دے دیتی تو نواز شریف اپنی مرضی سے کسی بھی ہسپتال میں علاج کروا سکتے تھے اور علاج کے لیے بیرون ملک بھی جاسکتے ہیں بشرطیکہ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر نہ ہو۔
نواز شریف کا مستقبل
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد نواز شریف کی رہائی کے لیے تمام دروازے بند نہیں ہوئے۔ نواز شریف اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر سکتے ہیں۔
فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ نواز کے رہنما خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکٹائیں گے۔
ڈیل کی خبریں
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے سے پہلے احاطہ عدالت میں مسلم لیگ ن کے رہنما، کارکنان اور میڈیا سبھی یہ توقع کر رہے تھے کہ آج نواز شریف کو رہائی مل جائے گی۔ اس کے ساتھ یہ خبر بھی گرم تھی کہ نواز شریف کی رہائی کے پیچھے کوئی ڈیل کار فرما ہے۔
جب مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما سے پوچھا گیا کہ اگر آج نواز شریف کو رہائی ملتی ہے تو اس کے پیچھے کوئی ڈیل ہو گی تو ان کا کہنا تھا کہ ہم عدالت میں انصاف لینے آئے ہیں ہمیں یہیں سے انصاف کی توقع ہے۔