ایران کی جانب سے عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر حملوں کے 24 گھنٹوں بعد ہی بغداد کے حساس ترین علاقے گرین زون کو دو راکٹوں سے نشانہ بنایا گیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بدھ اور جمعرات کی نصف شب کو بغداد کا قلعہ بند علاقہ، جہاں حکومتی عمارتوں اور امریکہ سمیت کئی ممالک کے سفارت خانے واقعہ ہیں، دو شدید دھماکوں سے گونج اٹھا۔
عراقی فوج کا کہنا ہے ان رکٹ حملوں سے کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔
فوج نے اپنے مختصر بیان میں کہا: ’کم از کم دو کیٹوشا راکٹ دارلحکومت کے گرین زون میں گرے ہیں جن سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ہم تحقیقات کر رہے ہیں اور جلد تفصیلات جاری کریں گے۔‘
دوسری جانب روئٹرز نے عراقی پولیس کے ذرائعے کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ دو راکٹس میں سے ایک امریکی سفارت خانے سے 100 میٹر دور گرا۔
ابھی تک کسی گروپ نے ان راکٹ حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم ایرانی حمایت یافتہ شیعہ ملیشیا پاپولر موبیلائزیشن فورسز (پی ایم ایف) نے اپنے رہنما ابو مہدی کی امریکی ڈرون حملے میں جنرل قاسم سلیمانی کے ساتھ ہلاکت کا بدلہ لینے کا عندیہ دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ انتقامی کارروائی کے لیے ان کے پاس تمام اختیارات موجود ہیں۔
دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے ملیشیا نے کہا تھا کہ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی اور پی ایم ایف کے نائب سربراہ ابو مہدی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے ان کے پاس ریڈ لائن جیسی کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
ایران نواز ملیشیا نے دھمکی دی تھی کہ اگر امریکی شہریوں نے اپنی حکومت پر عراق سے فوجی دستے واپس بلانے کے لیے دباؤ نہ ڈالا تو وہ امریکی فوجیوں کو تابوتوں میں واپس بھیجیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے عراق میں امریکی فوجی مفادات اور فوجیوں کے خلاف حملوں کی دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر عوام نے ڈونلڈ ٹرمپ کو دوبارہ منتخب کرکے ’ان کے جرائم‘ کی توثیق کی تو عام امریکی شہریوں کو بھی حملوں کا نشانہ بنائیں گے۔
بغداد کے گرین زون پر تازہ ترین راکٹ حملے اس وقت کیے گئے جب 24 گھنٹوں قبل ایران نے جنرل سلیمانی کی ہلاکت کا انتقام لینے کے لیے عراق میں عین الاسد اور اربیل میں قائم امریکی فوجی اڈوں کو بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بنایا تھا۔
ایران نے پہلے ان حملوں میں 80 امریکیوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا تاہم بعد میں اسے واپس لے لیا گیا۔ دوسری جانب امریکی صدر نے کہا ہے کہ ایران کے میزائل حملے میں کسی بھی امریکی یا عراقی فوجی کی ہلاکت نہیں ہوئی۔
حملے کے بعد بدھ کو اپنے پہلے خطاب میں ان کا کہنا تھا: ’ہمارے تمام فوجی ٹھیک ہیں اور صرف فوجی اڈے کو معمولی نقصان پہنچا ہے۔‘
ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی حملوں کے بعد امریکہ کی جانب سے کسی قسم کی ممکنہ جوابی کارروائی کا ذکر تو نہیں کیا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’بظاہر ایران پیچھے ہٹ گیا ہے، جو سب کے لیے اچھی بات ہے اور دنیا کے لیے بھی اچھا ہے۔‘
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ جب تک ایران اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتا اس کے خلاف پابندیاں برقرار رہیں گی۔
اپنے خطاب میں صدر ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر ایران پر پابندیوں کی بات کرتے ہوئے ’مزید سخت پابندیاں‘ عائد کرنے کا کہا۔
ادھر ایرانی صدر حسن روحانی کا کہنا تھا کہ ’اگر امریکہ نے جرم کیا ہے، تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اسے بھرپور جواب ملے گا۔‘
ایران کے سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والے اپنے خطاب میں حسن روحانی کا کہنا تھا کہ ’اگر وہ (امریکہ) عقلمند ہے تو وہ اس موقع پر مزید کوئی کارروائی نہیں کرے گا۔‘