امریکی فنڈنگ میں کٹوتیوں سے افغان بچے مر سکتے ہیں: امدادی اہلکار

ایک امدادی ادارے کے اعلیٰ اہلکار نے منگل کو خبردار کیا ہے کہ امریکی مالی امداد کی بندش کے باعث افغان بچوں کی اموات ہو سکتی ہیں۔

21 اگست 2024 کو افغان بچے افغان دارالحکومت کابل میں ورلڈ فوڈ پروگرام  کے ڈسٹری بیوشن سنٹر کے باہر ایک سکریپ کی دکان پر کھڑے ہیں۔ (رائٹرز/سید حسیب ٹی پی ایکس امیجز آف دی ڈے)

ایک امدادی ادارے کے اعلیٰ اہلکار نے منگل کو خبردار کیا ہے کہ امریکی مالی امداد کی بندش کے باعث افغان بچوں کی اموات ہو سکتی ہیں۔

یہ وارننگ اس وقت سامنے آئی ہے جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے کئی ممالک بشمول افغانستان میں غیر ملکی امدادی منصوبے ختم کر دیے ہیں — جہاں آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ انسانی امداد پر انحصار کرتا ہے۔

خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ’ایکشن اگینسٹ ہنگر‘ نامی بین الاقوامی ادارے نے مارچ میں امریکی امداد ختم ہونے کے بعد اپنے تمام امریکی فنڈنگ والے منصوبے روک دیے۔ تاہم اس نے بدغشاں اور کابل میں اپنے بجٹ سے کچھ اہم ترین خدمات جاری رکھیں، جو اب اس ماہ ختم ہو چکی ہیں۔

کابل میں قائم ادارے کا غذائی مرکز (تھیراپیوٹک یونٹ) خالی ہے اور اس ہفتے بند ہو رہا ہے۔ نہ کوئی مریض موجود ہے، نہ ہی عملے کے معاہدے برقرار رکھے جا سکے — یہ سب کچھ امریکی امداد بند ہونے کا نتیجہ ہے۔

ادارے کی کنٹری ڈائریکٹر کوبی رائٹ ویلڈ نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا: ’اگر ہم شدید غذائی قلت کا شکار بچوں کا علاج نہ کریں، تو ان کے مرنے کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔

کوئی بچہ غذائی قلت کے باعث مرنے کا مستحق نہیں۔ اگر ہم بھوک کے خلاف جنگ نہیں لڑیں گے تو لوگ بھوک سے مریں گے۔ اگر انہیں طبی سہولتیں نہ ملیں، تو وہ زندہ نہیں رہیں گے۔‘

2025 میں 35 لاکھ سے زائد افغان بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہوں گے — یہ 2024 کے مقابلے میں 20 فیصد اضافہ ہے۔ 

دہائیوں پر محیط تنازعات - بشمول طالبان کے ساتھ 20 سالہ امریکی جنگ - نیز غربت اور موسمیاتی بحران نے افغانستان کو بدترین انسانی بحران سے دوچار کر دیا ہے۔

گزشتہ سال امریکہ نے افغانستان کے لیے بین الاقوامی انسانی امداد کا 43 فیصد فراہم کیا تھا۔

رائٹ ویلڈ نے کہا کہ صرف ان کا ادارہ ہی نہیں، بلکہ کئی دیگر غیر سرکاری تنظیمیں بھی فنڈنگ کٹوتی سے متاثر ہو رہی ہیں:

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’جب ہم فنڈنگ بند کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ مزید بچے غذائی قلت سے مریں گے۔‘

غذائی مرکز میں آنے والے بچے اکثر نہ تو اپنے پاؤں پر چل سکتے اور نہ ہی گھٹنوں کے بل، اور بعض اوقات اتنے کمزور ہوتے تھے کہ کھا بھی نہیں سکتے تھے۔

یہاں تین وقت کے کھانے اور علاج کی تمام سہولیات مفت فراہم کی جاتی تھیں۔

رائٹ ویلڈ کے مطابق اب بچوں کو ایسے مراکز میں بھیجنا پڑے گا جہاں نہ گنجائش ہے اور نہ تربیت یافتہ عملہ۔

ڈاکٹر عبد الحمید صالحی نے کہا کہ افغان مائیں ایک بحران کا سامنا کر رہی ہیں۔ خاندانوں میں غربت کی سطح اتنی زیادہ ہے کہ شدید غذائی قلت کا شکار بچوں کا نجی کلینکوں میں علاج ممکن نہیں رہا۔

انہوں نے کہا: ’لوگ پہلے بڑی تعداد میں ہمارے پاس آیا کرتے تھے، اور اب بھی وہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید دوبارہ کوئی فنڈنگ مل جائے یا کوئی ہمیں اسپانسر کر دے تاکہ ہم اپنا کام دوبارہ شروع کر سکیں اور مریضوں کی خدمت کر سکیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا