کہتے ہیں جہنم ٹھنڈا ہے۔ اس میں جلنے والے اپنی آگ ساتھ لے کے آتے ہیں۔ پی ٹی آئی کا سیاسی جہنم بھی بالکل سرد تھا۔ کوئی پریشانی نہ تھی۔ مخالفین کی جان پر بنی ہوئی تھی۔ ابو سلامت، میڈیا جیب میں اور عوام تبدیلی کی امید سے۔
لیکن پھر آہستہ آہستہ خود ہی آگ اکٹھی کرنی شروع کی۔ اِدھر، اُدھر سے جلتی ہوئی لکڑیاں لا کر ایک الاؤ بھڑکا دیا اور اب اس میں جل رہے ہیں۔ اس سے بڑی جہنمی کیفیت کیا ہو گی کہ فواد چوہدری جو اپنے پرانے انقلابی دوستوں کو تھپڑ مار کر انتخابی کارناموں سے زیادہ شہرت پا چکے ہیں، اب اپنے پیارے وسیم اکرم پلس عثمان بزدار کو دوہتڑ مار رہے ہیں، اور وہ بھی ایسے کہ بعد میں تردید کی گنجائش بھی باقی نہ بچے۔
انھوں نے ایک خط کے ذریعے اپنے قائد وزیر اعظم عمران خان کو، جن سے وہ ہر کابینہ کے اجلاس میں ملتے ہیں، بزدار حکومت کی نااہلیوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ ان کے مطابق بزدار حکومت ترقیاتی منصوبوں پر مختص پیسے نہ لگا کر اپنی جماعت کی سیاسی ساکھ کو عوام میں تباہ کر رہی ہے۔
اس سے بھی کہیں زیادہ سنجیدہ الزام آئین کے آرٹیکل 140 اے کی خلاف ورزی ہے، جس کے تحت صوبائی مالیاتی ایوارڈ کا اجرا نہیں کیا گیا۔ فواد چوہدری نے وزیر اعلیٰ بزدار پر صوبے کو بادشاہوں کی طرح چلانے کا الزام لگایا اور کہا کہ ان حالات میں وفاقی حکومت کی بہترین کارکردگی کو بزدار حکومت کی نااہلی مٹی میں تبدیل کر رہی ہے۔
فواد چوہدری کیوں غصے میں ہیں؟ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک کا تعلق ان کے اس دیرینہ خواب و خواہش سے ہے کہ وہ پنجاب کے وسیع و عریض خطے کے وزیر اعلیٰ کے طور پر تعینات ہو جائیں۔ ظاہر ہے انھوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے پنجاب کو بزداری معیار کو قبول کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اگر یہ ہو سکتا ہے تو یہ صوبہ فوادی دور بھی برداشت کر سکتا ہے۔
اب یہ علیحدہ مسئلہ ہے کہ فواد چوہدری پنجاب میں چیف منسٹر بننے والوں کی فہرست میں چھٹے یا ساتویں نمبر پر ہیں لیکن اس فہرست کے موثر ہونے کے لیے وسیم اکرم پلس کو ہٹانا ہو گا۔ عین ممکن ہے کہ عثمان بزدار کی میڈیا میں ٹھکائی سے فواد چوہدری خود کو اپنے پرانے ہدف کے قریب لانا چاہتے ہوں۔ کچھ اور وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔
اسلام آباد میں آج کل یہ افواہ گرم ہے کہ فواد چوہدری پی ٹی آئی کے جس بڑے کی نمائندگی کرتے ہیں ان کی گھر والی اور بنی گالہ والی کے درمیان شدید سرد جنگ جاری ہے۔ بزدار پر حملہ اصل میں بنی گالہ پر حملہ ہے۔ اگر عثمان بزدار پنجاب سے کھسکائے جائیں تو بنی گالہ والی کا اثرو رسوخ کم ہو جائے گا۔
لیکن اصل مسئلہ اس سے کہیں بڑا ہے اور وہ قیادت کی اس کمزور مسند کا ہے جس پر اس وقت عمران خان براجمان ہیں۔ سیاسی اتحادی ایسے ناراض ہیں کہ جیسے ان کو ریحام خان مشورے دے رہی ہوں۔ سات، آٹھ ووٹوں کی طاقت سے ان کی بیساکھی پر کھڑی ہوئی حکومت اب چار اتحادی جماعتوں کی منت سماجت کر رہی ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس سندھ کے نمائندے کے طور پر حکومت سے شدید نالاں ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل بلوچ شکایات سیل میں تبدیل ہو چکی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ق پنجاب کا وہ ڈینگی بن گئی ہے جو طاقت کے نمرود کو بستر مرگ پر بھیج سکتی ہے۔ جب تین صوبوں سے ایسی صدائیں بلند ہونے لگ جائیں تو آپ کو سمجھ جانا چاہیے کہ چیلنج مفاہمتی کمیٹیوں کے بس کا نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ظاہر ہے فواد چوہدری کو علم ہو گا کہ ان کی حکومت اس وقت اتحادیوں کے ہاتھوں کتنی پریشان ہے۔ وہ اپنی شکایات کا پلندہ ٹویٹس اور خط کی بجائے بنی گالہ کی درگاہ میں حاضر ہو کر پیش کر سکتے تھے اور اگر وہ اس کو بدعت جانتے ہیں تو وفاقی کابینہ کا فورم تو موجود ہی تھا، اسے استعمال کر لیتے۔ پنجاب کی حکومت کے خلاف سیاسی ایف آئی آر تحریر کرتے وقت منسٹر موصوف نے یہ تمام احتیاط بالائے طاق رکھ دی۔ فیصل واوڈا نے جو بوٹ ٹیبل پر رکھا تھا لگتا ہے فواد چوہدری نے وہ اپنی حکومت کو رسید کیا ہے۔
ضروری نہیں کہ اتحادیوں کے نخرے اور فواد چوہدری کے لفڑے کے پیچھے خاموش تبدیلی کی کوئی گہری کہانی ہو۔ پنجاب کا ہر سیاست دان جو اس حکومت سے منسلک ہے اپنے حلقوں میں جانے سے کتراتا ہے۔ مہنگائی کی بلا نے لوگوں کی زندگیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
ملک کی اکثریت معاشی جان کنی کا شکار ہے۔ اگرچہ لنگر خانوں جیسی ڈرامے بازیاں ڈاکٹر ثانیہ نشتر اور ظفر مرزا کی سستی ذاتی تشہیر کا باعث تو بنتی ہیں مگر بھوک اور ناامیدی جو ملک کے طول و ارض میں وبا کی طرح پھیل چکی ہے کسی طور ختم ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہی۔
سستی روٹیوں پر تنقید کرنے والے آٹا مہیا کرنے سے قاصر ہیں۔ نان بائیوں کی دکانوں پر روزانہ لڑائیاں ہوتی ہیں۔ قبر کا سکون دلوانے والے نے کفن کی قیمت اور موت کے سرٹیفیکیٹ کے حصول کی لاگت میں 200 فیصد اضافہ کر دیا ہے۔
دنیا سے پیسے مانگ مانگ کر تھکنے کے بعد اب غیر معمولی شرح سود پر ’ہاٹ منی‘ کا وقتی بندوبست کر کے واجبی معاشی استحکام کا وقتی بھرم بنایا جا رہا ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ یہ پیسہ جتنی جلدی آ رہا ہے اتنی جلدی جا بھی سکتا ہے اور اس کے بعد جو معاشی بحران پیدا ہو گا اس کے نقصانات کا تصور کر کے ہی جھرجھری آتی ہے۔
ان حالات میں سیاست دان تکلیف سے بلبلا کر اگر شکایت نہیں کریں گے تو کیا قصیدہ لکھیں گے؟ پنجاب میں پی ٹی آئی کے ساتھ منسلک ہونے والے درجنوں اہم سیاست دانوں کے فیصلے میں یقیناً بوٹ کا ٹھڈا بھی شامل تھا، مگر یہ مفروضہ بھی تھا کہ عمران خان کے نام پر ان کو اضافی ووٹ مل سکتے ہیں۔
اب جب عمران خان کی حکومت معاشی دیوالیے اور زندگی کی نہ ختم ہونے والی مشکلات کا استعارہ بن چکی ہے۔ سیاست دان عوام کے غصے کو اپنی جماعت پر تنقید کر کے کم کرنا چاہ رہے ہیں۔ مگر اجتماعی طور پر اتحادیوں کی دولتیوں اور فواد چوہدری جیسے سیاست دانوں کے دوہتڑوں کا نتیجہ اسلام آباد میں مزید غیریقینی پھیلانے کا باعث بنے گا۔
یہ غیر یقینیت اس لحاظ سے مزید پریشان کن کیفیت میں بدل جاتی ہے جب آپ فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ کی دوسری مدت ملازمت کے آغاز کو ذہن میں رکھیں۔ تاریخی طور پر دوسرا عہد اکثر بڑے واقعات کی بنیاد بنتا ہے۔ ایوب خان ہو یا ضیا الحق، مشرف ہو یا کیانی طاقت کی دوسری قسط ہمیشہ بڑے سیاسی طوفانوں کا موجب ہی بنی ہے۔
موجودہ فوجی سربراہ کے سامنے تو مشکلات اور بھی گھمبیر ہیں۔ ایکسٹینشن لینے کے لیے جتنی تگ و دو ان کو کرنی پڑی اتنی کسی اور نے نہیں کی۔ پھر پچھلے تین سال میں وہ عمران خان کی حکومت کے اتنے قریب ہو گَئے کہ محمود و ایاز کا فرق ہی جاتا رہا۔ نتیجتاً اس حکومت کی تمام تر حماقتوں کی آدھی ذمہ داری ان کے کندھوں پر ڈالی جاتی رہی۔
اگر کوئی شک کی گنجائش تھی تو وہ مسٹر بوٹے نے پوری کر دی اور ٹی وی پر بیٹھ کے سب کو بتایا کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کا کام جنرل باجوہ کے ادارے نے کروایا ہے۔ کیا جنرل قمر باجوہ اپنے دوسرے دور میں عمران خان اور بزدار کی حکومتوں کو سنبھالا دینے کا وزن اٹھا سکیں گے؟ ایسی حکومتوں کا وزن جن کے بارے میں ان کے اپنے منسٹرز اور اتحادی ایک مسلسل احتجاجی تحریک چلائے ہوئے ہیں؟
اس سوال کا جواب ابھی ہمارے پاس نہیں ہے، مگر ہو سکتا ہے اگلے دو ماہ میں ہمیں جواب مل جائے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ فواد چوہدری اور حکومت کے اتحادی مل کر اس جواب کے لیے ماحول کو سازگار بنا رہے ہیں۔ ففتھ جنریشن وار فیئر میں ایسا ہی ہوتا ہے۔