ویسے تو جنگی قیدی کی تعریف کے مطابق اعلان جنگ کے بعد ہونے والی لڑائی کے دوران پکڑے جانے والے فوجی یا شہری کو جنگی قیدی کہتے ہیں۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق بھارتی پائلٹ کی واپسی کے لیے دلی نے اسلام آباد میں موجود اپنے ہائی کمیشن کے زریعے سفارتی رابطہ کیا تھا۔ تاہم وزیراعظم عمران خان نے 28 فروری کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں اچانک پائلٹ کی رہائی کا اعلان کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی فضائیہ کے ونگ کمانڈر کو اگلے دن یعنی یکم مارچ کو بھارت کے حوالے کر دیا جائے گا۔ تاہم یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ پاکستان نے بھارتی جنگی قیدی کو اس طریح واپس کیا ہو۔
کارگل کی جنگ میں بھی ایک بھارتی پائلٹ کو واپس بھیجا گیا تھا
چھبیس سالہ فلائٹ لیفٹینینٹ کم بمپتی ناچکیتا نے پاکستان کے خلاف کارگل کی جنگ میں حصہ لیا تھا۔ 27 مئی 1999 کو کارگل میں ناچکیتا کے طیارے کا انجن فیل ہونے کی وجہ سے پائلٹ نے طیارے سے چھلانگ لگا دی تھی۔ پاکستانی حدود پر گرنے کی وجہ سے بھارتی پائلٹ کو پاکستان نے حراست میں لے لیا۔ سفارتی رابطوں کے بعد آٹھویں دن بھارتی پائلٹ کو بین الا قوامی ریڈ کراس کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا جو پاکستان بھارت کی کارگل جنگ ختم ہونے کی ایک وجہ بنی۔
فروری میں ہونے والی جھڑپوں کو کیا جنگ اور اس کے نتیجے میں پکڑے جانے والوں وہ جنگی قیدی قرار دیا جاسکتا ہے؟
جنگی قیدی کی تعریف پر کون پورا اُترتا ہے؟
جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 4 کے مطابق فوج سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص جو اپنی حکومت کی مرضی سے کسی جنگی کارروائی میں حصہ لیتا ہے وہ پکڑے جانے پر جنگی قیدی کہلائے گا۔ جبکہ آرٹیکل پانچ کے مطابق اگر آرٹیکل چار کے تحت قیدی پکڑا جائے لیکن جنگ کے اعلانیہ یا غیر اعلانیہ ہونے کی وجہ سے اُس کی حیثیت کا فیصلہ نہ ہو پائے تو فیصلہ آنے تک وہ جنیوا کنوینشن کے تحت میسر سہولیات سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔
جنگی قیدی کے کیا حقوق ہوتے ہیں؟
جنیوا کنونشن کے تحت تمام جنگی قیدی جنہیں جنگ کے دوران یا جنگ کے اختتام پر حراست میں لیا جائے تمام حقوق میسر ہیں اور اس کے انسانی بنیادی حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے۔ جنیوا کنوینشن کی کیٹگری تین اور آرٹیکل 17 کے تحت اگر پکڑا جانے والا قیدی فوجی ہے تو اُس کے ساتھ اُس کے عہدے کے مطابق سلوک کیا جاتا ہے۔ اُسے ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ اگر قیدی کسی سوال کا جواب نہ دینا چاہے تو زبردستی نہیں کی جاسکتی۔ آرٹیکل 18 کے مطابق جنگی سامان اور فوجی دستاویزات کے علاوہ اس کی اشیاء فوجی قیدی سے نہیں لی جاتیں۔
جنیوا کنونشن کا اطلاق پاکستان اور بھارت دونوں پر ہوتا اور دونوں اُس کے تمام قوانین پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے اعلانیہ جنگ اور غیر اعلانیہ جنگ ہونے سے متعلق کئی سوالات تھے جس کے تحت بھارتی پائلٹ کی جنگی حیثیت واضح نہیں تھی۔ لیکن سابق ائیر مارشل سہیل امان نے کہا کہ جب ایک جنگی طیارہ حملے کی نیت سے سرحد پار کرتا ہے تو وہ اعلان جنگ ہی ہوتا ہے اس لیے بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کی حیثیت ایک جنگی قیدی کی ہے اس لیے اُس کے ساتھ جنیوا کنونشن کے مطابق ہی سلوک کیا جائے گا۔