عمران خان کے خلاف مولانا فضل الرحمٰن کی فرد جرم کے مندرجات سے تو ہم واقف ہیں لیکن کیا ہم جانتے ہیں کہ ایسی ہی ایک فرد جرم ایک دور میں مولانا نے نواز شریف کے خلاف بھی اسی تندہی سے مرتب فرمائی تھی؟
میرے سامنے مولانا کے انٹرویوز کا مجموعہ ’مشافہات‘ رکھا ہے جسے مفتی محمود اکیڈمی نے شائع کیا ہے۔ ان تین جلدوں کے مطالعے سے بظاہر مولانا کی سیاست کے چار رہنما اصول سامنے آتے ہیں۔
اول: جس الیکشن میں مولانا کی حریف سیاسی جماعت جیت جائے اور دور دور تک جے یو آئی کے لیے شراکت اقتدار کا کوئی امکان نہ ہو تو ان انتخابات میں شدید قسم کی دھاندلی ہوئی ہوتی ہے اور مولانا کا مینڈیٹ چرایا جا چکا ہوتا ہے۔
دوم: مولانا کی جماعت اگر اپوزیشن میں ہو تو اس گستاخی کے نتیجے میں حکمران نہ صرف ملک دشمن قرار پاتا ہے بلکہ اس کی اسلام دشمنی بھی بے نقاب ہو جاتی ہے۔ ان حالات میں مولانا کے نازک کندھوں پر بیک وقت نہ صرف جمہوریت کے تحفظ بلکہ پاکستان اور اسلام کے مفادات کے تحفظ کی بھاری ذمہ داری بھی آن موجود ہوتی ہے۔
سوم: جمہوریت، پاکستان اور اسلام کی اس جدوجہد کی نوعیت اور شدت کا انحصاراس بات پر ہوتا ہے کہ میدان سیاست میں مولانا کے لیے امکانات کا دروازہ بند ہے یا کھلا ہے اور کھلا ہے تو کتنا کھلا ہے۔
چہارم: مولانا سیاست کے منفرد کھلاڑی ہیں، وہ ایک ہاتھ میں بلا اور دوسرے میں گیند تھامے میدان میں اترتے ہیں تو آپ یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ پہلے ہی اوور میں وہ بیٹنگ چھوڑ کر بولنگ شروع کر دیں یا بولنگ کرتے کرتے چھکا لگا دیں یا وہ سب کچھ چھوڑ کر اچانک ہی ایک طرف بیٹھ جائیں کہ میں تو آیا ہی ہاکی کھیلنے تھا۔ یہ امکان بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کسی بھی وقت پچ پر جا کر بیٹھ جائیں کہ پی سی بی کے عزیز ہم وطنو، 73 کے آئین کے تناظر میں مجھے اس میچ میں مزہ نہیں آ رہا، فی الفور نیا میچ کرایا جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آئیے دیکھتے ہیں جب وہ نواز شریف کے ساتھ نہیں تھے، محترمہ بے نظیر کے حلیف تھے لیکن نواز شریف الیکشن جیت گئے تو کیا ہوا؟ فوری طور پر پہلا اصول بروئے کار آیا اور انکشاف فرمایا گیا کہ بڑے پیمانے پر خوفناک دھاندلی ہو گئی اور نواز شریف وغیرہ نے مولانا وغیرہ کا مینڈیٹ چرا لیا۔(مشافہات جلد اول، صفحہ 245)۔
فرمایا: ’ہم اس حکومت کو دھاندلی کی پیداوار سمجھتے ہیں۔ اب ایک ہی راستہ باقی ہے کہ نئے انتخابات کرا دیے جائیں۔ ہم صدر پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی آئینی ذمہ داری پوری کریں، یہ ہم ملک کے مفاد اور جمہوری نظام کی بہتری کے لیے کر رہے ہیں۔‘
اس کے بعد دوسرا زریں اصول بروئے کار آیا اور نواز شریف کی ملک دشمنی آشکار فرما دی گئی۔ مولانا نے فرمایا: ’ہمیں انتہائی با خبر ذرائع سے اطلاعات ملی ہیں کہ حکومت ایٹمی پالیسی پر سودے بازی کی طرف جا رہی ہے۔ آج ہمیں ایسی اطلاعات اپنے خاص ذرائع سے حاصل ہوئی ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کسی سمجھوتے کی طرف یہ لوگ جا رہے ہیں۔‘ (مشافہات جلد اول، صفحہ.46 245)
اب تیسرے رہنما اصول کی باری تھی۔ چنانچہ کارگل سے افواج کی واپسی کا معاملہ سامنے آیا تو مولانا نے موقع دیکھ کر تیسرا اصول لاگو فرما دیا۔ ارشاد فرمایا: ’پورا ہندوستان ہل کر رہ گیا تھا۔ یہ کئی سالوں کی منصوبہ بندی تھی۔ افواج اور مجاہدین کے بہترین کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی صورت حال میں پارلیمنٹ، عوام اور کابینہ کو اعتماد میں لیے بغیر معاہدہ واشنگٹن کرنا اور فوج کو واپس بلانا پاکستانی قوم اور مسلم امہ کی توہین ہے۔‘ جنگ سے اجتناب کو ان دنوں نواز شریف نے جنگ لڑنے سے زیادہ جرات مندانہ اقدام قرار دیا تو مولانا نے فرمایا: ’یہ گناہ کبیرہ ہے۔‘
یعنی چونکہ مولانا اپوزیشن میں تھے اس لیے نواز شریف دھاندلی کی پیداوار بھی تھا، وہ ملک دشمن بھی قرار دے دیا گیا اور پھر اسے گناہ کبیرہ کا مرتکب بھی قرار دے ڈالا۔ آپ کیا سمجھتے ہیں مولانا کا اپوزیشن میں چلے جانا کوئی معمولی قیامت ہوتی ہے؟ یہ ایک سنگین جسارت ہے اور جو اس کا ارتکاب کرتا ہے، نواز شریف ہو یا عمران خان، رہنما اصول ہر ایک پر لاگو ہوں گے۔
اب آئیے مولانا کے چوتھے اور آفاقی اصول کی طرف۔ جناب مولانا بے نظیر بھٹو کے ساتھ تھے۔ لیکن جب بے نظیر کی حکومت ختم ہوئی اور آئی جے آئی جیتی اور نواز شریف وزیراعظم بن گئے تو مولانا نے نواز شریف سے مطالبہ کرنا شروع کر دیا کہ چونکہ عورت کی سربراہی مناسب نہیں اس لیے آئین میں ترمیم کی جائے کہ آئندہ کوئی عورت وزیر اعظم نہیں بن سکتی۔(جلد اول، صفحہ 256)۔
لیکن دوسری طرف نواز شریف کے شریعت بل کو رد کرتے ہوئے فرمایا: ’ہمارا موقف ہے کہ بے نظیر حکومت میں پاس کردہ سینیٹ کا شریعت بل آج دوبارہ پاس کروا کر نافذ کیا جائے۔‘ (جلد اول، صفحہ 252)۔
جلد اول کے صفحہ 253 پر فرمایا: ’ماضی میں بھی ہم نے بے نظیر بھٹو کی مخالفت کی تھی‘ اور اگلے صفحے پر فرمایا ’ماضی میں ہم نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔‘ صفحہ 203 پر فرمایا: ’لوگوں نے آئی جے آئی کو ووٹ اس لیے دیا کہ لوگ اسلام کا قانون چاہتے تھے ورنہ کبھی آئی جے آئی کو ووٹ دے کر بھاری اکثریت سے کامیاب نہ کراتے‘ اور صفحہ 216 پر فرمایا کہ آئی جے آئی جیتی ہی دھاندلی سے تھی۔
تب مولانا کی نواز شریف سے نہیں بنتی تھی، جیسی آج کل عمران خان سے نہیں بنتی۔ چنانچہ 1996 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں فرماتے ہیں: ’ہم نے میاں نواز شریف سے کہا کہ ہم مسلم لیگ سے بات کرنے کے لیے تو تیار ہیں لیکن وزیر اعظم کے لیے آپ کو اپنا متبادل لانا ہو گا۔ آپ نے بہت سی غلطیاں کی ہیں، ہم مزید تجربات نہیں کرنا چاہتے۔‘ (مشافہات۔ جلد اول، صفحہ 359)
میر بھی کہاں یاد آئے:
مختار رونے ہنسنے میں تجھ کو اگر کریں
تو اختیار گریۂ بے اختیار کر!