بڑی مشکل ہے جناب، بات اکا دکا سے ہوتی ہوئی درجنوں اور اب سینکڑوں تک آن پہنچی ہے۔ میں بات کر رہی ہوں پشتون تحفظ موومنٹ کے جذباتی کارکنوں اور ان کے حمایتیوں کی۔
ہیں یہ سب کے سب پاکستانی اور الزام ان سب پہ غداری کا ہے۔ کسی کا باپ ریٹائرڈ دلیر فوجی تو کسی کی ماں ماہر تعلیم، کوئی یونیورسٹی کا پروفیسر، کوئی انقلابی شاعر تو کوئی ماہر اقتصادیات۔ کوئی تو وزیرستان کے دیانت دار تاجر کا بیٹا ہے اور کوئی طالبان کے ہاتھوں شہید ہونے والے قبائلی لڑکے کا باپ۔
تھانے کی رپٹ کہتی ہے کہ یہ سب کے سب دستور پاکستان پر سوال اٹھاتے ہیں، یہ ملکی اداروں پر تنقید کرتے ہیں، یہ عوام کو بغاوت پر اکساتے ہیں، یہ افواج پاکستان کے خلاف نعرے لگاتے ہیں اور جب یہ دھرتی ماں کو گالی دیتے ہیں تو قانون کے ادارے باپ بن کر ان کی خوب خبر گیری کرتے ہیں۔ ہیں یہ سب کے سب پاکستانی۔
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ انھیں بھارت، امریکہ اور افغانستان کی مالی و سیاسی حمایت حاصل ہے، انھیں میڈیا کے بین الاقوامی ادارے کوریج دیتے ہیں، انھیں انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کا تعاون ملتا ہے، انھیں یورپی ممالک پناہ دیتے ہیں، انھیں ملک کے دشمن بڑھاوا دیتے ہیں مگر ہیں یہ سب کے سب پاکستانی۔
پاکستانی وہ بھی تھے جن پر پاکستان بننے کے چار سال بعد ہی راولپنڈی سازش کیس بنا دیا گیا تھا۔ مشہور شاعر فیض احمد فیض اسی معاملے میں پابند سلاسل ہوئے، آج ان کے لکھے گیت گائے جاتے ہیں۔
وہ باغی بھی سو فیصد پاکستانی تھے جنھوں نے 1981 میں اپنے ہی ملک کا طیارہ اغوا کر لیا تھا۔ اس بغاوت کے ماسٹر مائنڈز کوئی اور نہیں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے مرحوم بیٹے مرتضیٰ اور شاہنواز تھے۔ آج گڑھی خدا بخش میں ان کے مزار پہ پھول چڑھائے جاتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے بھی سو فیصد خالص پاکستانی تھے جنھیں جناح پور کے نقشے لہرا کر غدار وطن کہا گیا، پھر کچھ ہی برسوں بعد وہ غدار پاکستانی ایک فوجی جرنیل کی حکومت میں سانجھے دار ہوگئے۔
بغاوت کی فیکٹری 73 برسوں سے باغی اُگل رہی ہے۔ غداری کی پراڈکٹس ہاتھوں ہاتھ بکتی ہیں۔ ادھر ریاست نے کسی سوال اٹھانے والے کو غدار قرار دیا، ادھر تاک میں بیٹھے دشمنوں نے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ انٹرنیشنل مارکیٹ میں غدار وطن برائے فروخت لانے کا سہرا بھی تو خود ہمارے ہی سر جاتا ہے۔
سوشل میڈیا کے آنے سے تو یہ بغاوت کا مرض وائرس بن گیا ہے، جتنا علاج ڈھونڈ لو یہ نئی شکل اور نئی علامات کے ساتھ سر اٹھا لیتا ہے۔ کہیں بغاوت کی بو سوال سے آتی ہے، کہیں نعروں سے بغاوت کا عکس جھلکتا ہے۔ بغاوت کی سرکوبی کرنے والوں کو ایک مسئلہ اور بھی درپیش ہے کہ پہلے صرف سیاسی کارکنان ہی بولتے تھے جن کی پکڑ دھکڑ قدرے آسان تھی۔ اب تو جسے دیکھو اس کی زبان پہ سوال ہے، شکوہ ہے شکایت ہے۔
احتجاج ایک جمہوری حق ہے، یہ بغاوت کے زمرے میں آتا نہیں مگر فی الحال یہ پرامن جلسے جلوس، ریلیاں اور دھرنے بھی بغاوت کی ایک قسم گردانے جا رہے ہیں۔ کہیں مظاہرین ڈنڈے لے کر نکل آتے ہیں، کہیں جھنڈوں کی پناہ میں ریاست سے جواب مانگتے ہیں۔ کوئی احتجاج فطری ردعمل کی طرح ہوتا ہے ایک دم اوریجنل اور کسی احتجاج کو سٹیج کرایا جاتا ہے۔
میں ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنا چاہتی ہوں کہ آخر کیوں ہمارے ہی وطن میں غدار اتنی وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں؟ بغاوت و غداری کی اس فیکٹری کو تالا کیوں نہیں لگتا؟ ریاست کی لیبارٹری میں محب وطن پاکستانی کو غدار بنانا اور غدار سے پھر محب وطن بنائے جانے کے کیمیکل فارمولے کب ترک ہوں گے؟
کوئی دشمن سے لے کر ہتھیار اٹھاتا، بم دھماکے کراتا، گولیوں کی گونج میں اہل وطن کے خون سے کھیلتا تو لامحالہ ان سے نمٹنے کے لیے ہماری پہلی اور آخری ترجیح ہماری غیور پاک افواج ہوتیں مگر اس تحریک کا کیا کریں جو پاکستانی عوام کے ووٹوں اور سیاسی راستوں سے پارلیمنٹ میں آبیٹھی؟ اسے کیسے غدار و باغی کہیں جسے وزیر اعظم عمران خان سمیت ملک کی اکثر سیاسی جماعتیں ایک سیاسی حقیقت کے طور پر قبول کر چکی ہیں؟
جو آئین کی کتاب اٹھا کر اپنے حقوق کا سوال کرے اسے آئین کی شقوں سے جواب ملے گا تو بات بنے گی ورنہ یہ بالوں سے پکڑ کر پولیس موبائل میں دھکیلنا صرف عالمی ہیڈ لائنز کا بھوکا پیٹ بھرنے کے سوا کیا ہے؟ اور وہ بھی ایسے وقت میں کہ جب شاہین باغ میں دیا گیا بھارتی مسلمانوں کا احتجاجی دھرنا دہلی سرکار کے سینے پہ سانپ کی طرح لوٹ رہا ہے۔
وہ بڑا ہی کوئی بدقسمت ملک ہوگا کہ جس کی مائیں نسل در نسل غدار جنتی ہوں گی۔ پاکستان کو ایسا بدقسمت ملک نہ بنائیں۔ صاحبان اختیار خدارا یہ ناراض مہاجر، ناراض سندھی، ناراض بلوچ کے بعد اب ناراض پشتون کی گردان چھوڑیں اور مذاکرات کی ٹیبل پر بٹھا کر ناراض پاکستانیوں کو منانے کا بیٹرا اٹھائیں۔