بھارت کی زمین پر ہندو مسلم تعلقات، ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد، دہلی کی ثقافت، مغل بادشاہت کا خاتمہ اور پھر جنگ آزادی کو ادبی پیرائے میں سمجھنے کے لیے مشہور بھارتی شاعر گلزار اور کیفی اعظمی کا بنایا ڈرامہ سیریل ’غالب‘ بڑا پُر اثر ہے۔
نصیرالدین شاہ، جو کہ غالب کے روپ میں جلوہ گر تھے، بتاتے رہے اور دیکھنے والے تصور کی آنکھ سے دیکھتے رہے کہ پرانی دلی میں شاہ جہان آباد کیسے برباد ہوا، کیسے دلی کے چوک چوراہوں پر برگد کے درختوں کی شاخوں سے مسلمانوں کی لاشیں لٹکائی جاتی تھیں۔
یہ جو میرے کالم کا عنوان ہے یہ بھی دراصل آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا لکھا نوحہ ہے، جسے دلی کے تخت سے اٹھا کر رنگون کی قید تنہائی میں پھینک دیا گیا۔ پرانی دلی کو روتے روتے غالب اور ظفر دونوں ہی مر گئے ان کا محبوب دلی اب تک مر رہا ہے۔ آج پھر دلی کے گھر گھر صف ماتم بچھی ہے۔
پرانی دلی سے دہلی بنا یہاں تک کہ یہ نئی دہلی بھی کہلانے لگا مگر پچھلی دو صدیوں سے غدر، دنگے، لوٹ مار، ہندو مسلم فسادات اور آہنی سلاخوں سے لیس ہندو بلوائی اس شہر کا مقدر ہی ٹھہرے۔ اٹھارویں صدی کے آخر میں پرانی دلی جنگ آزادی کے نام پر مسلمانوں کے خون سے نہلائی گئی۔ انگریز بہادرکے دور میں دلی جلتی بجھتی رہی یہاں تک کہ بھارت پاکستان کی شکل میں اس خطے کی تقسیم کا وقت آگیا۔
دہلی نے 1947 کے ہندو مسلم فسادات دیکھے، سڑکوں پہ عریاں پڑی لاشیں دیکھیں۔ 1984 میں بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو ان کے دو سکھ گارڈز نے قتل کیا تو اسی دہلی کو سکھوں کے خون سے اشنان کرایا گیا۔ تین ہزار سے زائد سکھ مار دیے گئے مگر دہلی پھر بھی پاک نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ 2020 آگیا۔
مصطفیٰ آباد، چاند باغ، گوکل پوری، جعفرآباد، بابر پور، کبیر نگر، شاہین باغ یہ پرانی دلی کے وہ علاقے ہیں جہاں مسلمان اکثریت میں رہتے ہیں۔ لکھتے ہوئے افسوس تو ہوتا ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ وہ علاقے ہیں جنہیں آج مسلمانوں سے پاک کرنے کے لیے ہندو انتہا پسند اسے مسلمانوں کے خون سے نہلارہے ہیں۔
جسے مسلمان پایا اسے ادھیڑ دیا، مسلمان کا گھر دیکھا تو لوٹ لیا اور کسی دکان پر مسلمان نام کا بورڈ لگا دیکھا تو اسے جلا کر بھسم کردیا ۔ یہ ہے نئی دہلی۔
بھارت میں مسلم کش فسادات پر اگر ہم پوائنٹ سکورنگ کریں تو یہ ہم پہ جچتی نہیں۔ ہاں ایسے بیہمانہ ظلم کی مذمت سخت سے سخت الفاظ میں بنتی ہے دن رات بنتی ہے۔ نہیں یہ کوئی شادیانہ نہیں کہ ’وہ پھنس گئے اور پاکستان آکر ہم بچ گئے‘۔ بہت سے پاکستانیوں کو پاکستان سے بھی شکایات ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پسا طبقہ پاکستان میں حقوق کی جنگ لڑتا ہے مگر بھارت میں مسلمان اپنی بقا کی جنگ لڑرہا ہے۔
بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی سیاسی، مذہبی اور ریاستی انتہا پسندوں کا مشترکہ پراجیکٹ ہے جسے بھارتی ریاستی مشینری کے ذریعے پورا کیا جارہا ہے۔ صرف جتھے یا کچھ حلقے ملوث ہوتے تو نوبت یہاں تک نہیں پہنچتی۔ رہی بات پاکستان کی تو کم از کم پاکستانیوں میں اتنی سیاسی بالیدگی تو ہے کہ یہاں کبھی کسی ایسے شخص کو مسیحا نہیں سمجھا گیا جو اقلیتوں کوکچلنے میں سپیشلسٹ ہو۔
ہمارا راہبر کوئی ’گجرات کا قصائی‘ نہیں۔ ہماری پولیس مسلح جتھوں کے ساتھ مل کر اقلیتوں کے گھروں کو آگ نہیں لگاتی، ہمارے ڈاکٹرز اقلیتی مذہب کے مریض کو طبی امداد دینے سے انکار نہیں کرتے۔ انفرادی یا گروہی شکل میں انتہا پسند ہمارے یہاں بھی کچھ کم نہیں مگر بھارت کے برخلاف انہیں سیاسی یا حکومتی سرپرستی کھلم کھلا نہیں ملتی۔
بھارت کی سڑکوں پر مسلمان نوجوانوں کو گھسیٹ کر مار ڈالنے کے مناظر نیو نارمل ہو گئے تھے، کشمیر میں روز مرتے مسلمان بھی بھارت میں معمول کی خبر بن گئے تھے، مگر اس بار مودی سرکار نے شہریت کے قانون کے ذریعے مسلمانوں کو جو ضرب لگائی ہے تو جو خاموش بیٹھے تھے وہ بھی بلبلا اٹھے۔ اب کی بار آسام سے دہلی تک، شیعہ سے سنی تک سب ہی مسلمانوں کی بقا کا سوال ہے۔ اب کشمیر نہیں پورے بھارت میں مسلمان آزادی کے نعرے لگا رہے ہیں۔
معروف تاریخ دان پروفیسر فتح محمد ملک سے میں نے یہ سوچ کر بات کی کہ کچھ ذکر دہلی کا ہوگا کچھ مودی کے انداز حکمرانی کا اور یوں بات سے بات نکلے گی مگر پروفیسر صاحب کا تجزیہ بڑا مختصر اور دوٹوک تھا ۔ کہنے لگے ’میں بھارت کے مزید ٹکڑے ہوتے دیکھ رہا ہوں، دہلی فسادات اس کی ابتدا ہے۔‘
میں نے عرض کی پروفیسر صاحب یہاں مسلمانوں کی نسل کشی پر بھارت کی مذمت اتنی آسان نہیں، کجا یہ کہ آپ بھارت ٹوٹنے کی بات کریں۔ بھارتی مسلمانوں پر گزرتی قیامت کا احوال لکھیں تو کراچی میں مہاجروں کے خلاف آپریشن، بلوچستان آپریشن، ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کرنے کے واقعات اور قادیانیوں کے خلاف پرتعصب اقدامات گنوائے جاتے ہیں۔ یہ بھی تو کڑوے سچ ہیں۔
پروفیسر فتح ملک نے کھل کر کہا کہ یہ بھارتی ریاستی جبر سے آنکھ چرانے کے حربے ہیں، جنرل مشرف کے زمانے سے پاکستان میں انڈو امریکن لابی متحرک ہے، یہ لابی بھارت کی حمایت میں اس حد تک بھی چلی جاتی ہے کہ کوئی مسلمانوں کی نسل کشی کی مذمت بھی کرے تو یہ برداشت نہیں کرتے۔
قطع نظر اس کے کہ پاکستان سمیت مسلم دنیا میں کسے بھارتی مسلمانوں کا غم ستا رہا ہے، کسے جلتی مسجدوں کا دکھ کھائے جارہا ہے۔ میری دانست میں تو بھارتی مسلمان کی بقا کی کنجی آج خود ان کے ہاتھ میں ہے۔ وہ ہزار بار ’میرا بھارت مہان‘ کی تسبیح پڑھ لیں، سفید کرتے پاجامے پہن کر امن کی فاختہ بن جائیں مگر ہندو انتہا پسندوں کے سر پہ سوار ’ہندواتا‘ کا جنون ان کی خاموشی کو گاہے بگاہے چیلنج کرتا رہے گا۔ اب یہ بھارتی مسلمانوں کی سیاسی بصیرت کا امتحان ہے کہ وہ لمحہ بہ لمحہ اپنی گردنوں پہ کستے اس طوق کو کب جھنجھوڑتے ہیں کب توڑتے ہیں۔