فوربس میگزین کی تازہ ترین امیروں کی فہرست نے کائلی جنر کو دنیا کی کم عمر ترین ارب پتی کہا ہے۔ 21 سالہ کائلی نے اپنے ابتدائی دس لاکھ اس وقت بنائے جب وہ قانونی طور پر پی کر اپنی کامیابی کا جشن بھی نہیں منا سکتی تھیں۔ اب تک وہ دس ہندسوں کا خزانہ میک اپ مصنوعات کے ذریعے بنا چکی ہیں۔
لیکن کائلی کے ’اپنے بل بوتے‘ پر کامیابی کے خلاف ردعمل کافی سخت تھا، جس نے فوربس کو مجبور کیا کہ وہ اپنے بل بوتے کی وضاحت کچھ یوں کریں کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جس نے کوئی کمپنی یا اثاثے خود بنائے ہوں۔ یہ کائلی کی بابت تکنیکی طو پر درست ہے۔
ہم سب کچھ کے باوجود ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں آدھا امریکہ سمجھتا ہے کہ ان کا صدر ایک ریل اسٹیٹ امیر کاروباری شخص کا خود اپنے آپ کو بنانے والا بیٹا ہے۔ ہمارا کائلی کے خلاف رویہ یہ بتاتا ہے کہ ہم کیسے نوجوان خواتین کا عوامی سطح پر مردوں کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں۔
چند برس پہلے جب میں نے پہلی مرتبہ کائلی کی طرف سے ہونٹوں کی کٹ کا آغاز کرنے کے بارے میں سنا تو میں کوئی زیادہ قائل نہیں تھی۔ انسٹاگرام کے دور میں مشہور شخصیات بہت جلد کسی نئی چیز کو، جس کا معیار اکثر اچھا نہیں ہوتا اپنا نام دے دیتی ہیں۔ یہ کٹ آئی بھی بہت زیادہ قیمت کے ساتھ۔ پھر بھی چند ماہ بعد میں ای بے پر ایک انتہائی کم قیمت کٹ تلاش کر رہی تھی تو مجھے خوشگوار حیرانی ہوئی۔ جب بات میک اپ کی آتی ہے تو کائلی کو معلوم ہے وہ کیا کر رہی ہیں۔
لیکن جس وقت کائلی جنر چند ماہ میں کامیاب کاروبار کا آغاز کر رہی تھیں، ان کی عمر کے دیگر لوگ قدرے ملا جلا حالات دیکھ رہے تھے۔ امریکہ اور برطانیہ میں 80 کی دہائی سے معاشرے کے ایک طبقے سے دوسرے میں جانا تشویش ناک حد تک تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے اور اپنے بل بوتے پر کچھ بننا زیادہ مشکل ہوگیا ہے۔ اگرچہ کروڑوں بنانے کا خواب کبھی قدرے ممکن دکھائی دیتا تھا، اب یہ محض چند تک محدود ہوگیا ہے- اکثر ان کو جن کے پاس خاندانی پیسہ ہے۔
اس کے برعکس وہ جو نئے منصوبوں کا آغاز کرنا چاہ رہے ہیں ان کا امکان ہے کہ وہ ہماری طرح کے بڑی تعداد میں بڑھتے ہوئے افراد میں شامل ہوں گے جو کل وقتی کیرئر کے ساتھ ساتھ ایک دوسری ملازمت بھی کر رہے ہیں۔ 80 کی دہائی کے بعد پیدا ہونے والے ’میلینیل‘ اب دباؤ کی وجہ سے تھکنے کی شکایت کرنے لگے ہیں وہ بھی منجمد تنخواہوں، مکانات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور اپنے والدین سے زیادہ کمانے میں ناکامی کی وبا کے ماحول میں۔
کائلی کا اپنی شہرت اور قسمت کو کاروبار میں داؤ پر لگانے کا فیصلہ قابل ستائش ہے۔ اس ریئلٹی سٹار کے لیے تمام عمر یہ زیادہ آسان رہتا کہ وہ ڈی ٹاکس چائے فروخت کرتی اور کلب جایا کرتیں۔ لیکن انہوں نے اپنا کاروبار یقیناً صفر سے شروع نہیں کیا۔ ان کے پاس بڑے پیمانے پر خاندانی پیسہ بھی تھا جو وہ ان مصنوعات کی بہتری پر صرف کر سکتی تھیں۔ ان کی سوشل میڈیا پر کافی بڑی فالونگ ہے- کسی مارکٹنگ والے کا خواب والی جہاں ذاتی برینڈ ہی سب کچھ ہے۔ ان کو ریڈی میڈ کیرئر اور صحت مند بینک اکاؤنٹ دستیاب تھے۔ قصہ مختصر ان کے پاس وہ سب کچھ تھا جس کا میلینل خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ کائلی کو اگر ایک چیز وافر مقدار میں دستیاب تھی تو وہ مواقع تھے۔
اس کی روشنی میں کائلی کو اپنے بل بوتے پر بننے والی خاتون کہنا کم علمی یا تضیک آمیز ہے۔
اپنا غصہ کائلی پر داغنے کی بجائے، ہمیں اس نظام کے متوازن نہ ہونے پر توجہ دینی چاہیے جو اپنے بل بوتے پر کچھ بننے کو تقریباً ناممکن بنا رہا ہے۔ کائلی کا اپنے بل بوتے پر کچھ بننا مناسب ہے یا نہیں غیر اہم ہے۔ ان کا امیروں کی فہرست میں شامل ہونا جو بتا رہا ہے وہ یہ ہے کہ خود کچھ بنا کتنا مشکل ہوگیا ہے۔