شہباز شریف کی ملک واپسی کی خبریں ہر طرف گردش کر رہی ہیں۔ لندن میں خاندانی ذرائع تاریخ بتائے بغیر ان خبروں کی تصدیق کرتے ہیں اور ساتھ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہم سب شہباز شریف کو ایک نئے انداز سے دیکھیں گے۔
پاکستان میں کسی کونے سے بھی کوئی ایسا لائحہ عمل بنتے ہوئے نظر نہیں آ رہا جو شہباز شریف کی دھماکہ خیز آمد کی گواہی دے رہا ہو۔ اس کے برعکس شہباز شریف کی واپسی کا مزہ کرکرہ کرنے کے لیے ن لیگ کے صوبائی اسمبلی کے اراکین کبھی چیف منسٹر پنجاب عثمان بزدار سے ملتے ہیں اور کبھی گورنر چوہدری سرور سے۔
پارٹی کے رہنما کی آمد بکھری ہوئی صفوں کو ترتیب میں لے آتی ہے۔ یہاں پر کچھ اور ہو رہا ہے۔ ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ شہباز شریف ملک میں دھمال ڈالنے کے لیے نہیں آ رہے۔ وہ جس تیزی سے گئے تھے اس کے بعد ان کی طرف سے واپسی کا سفر ہی ایک قربانی تصور کیا جانا چاہیے۔
ملک کے وسیع سیاسی منظرنامے میں شہباز شریف واپس آ کر باہر رہنے کی نسبت زیادہ شرمندگی اٹھائیں گے۔ اگر انہوں نے یہ طے نہیں کیا کہ ملک میں قدم رکھنے کے بعد انہوں نے کرنا اور کہنا کیا ہے؟ پاکستان اور اس کے سیاسی حالات اس نکتے سے کہیں آگے نکل گئے ہیں جہاں پر ٹیڑھی ٹوپی کے سائے میں سے زومعنی جملے داغ کر آپ اپنی سیاسی دانش مندی کا لوہا منوا سکتے ہوں۔ یا پھر طنزیہ ٹویٹ اور تین مہینوں میں ایک مرتبہ مصنوعی جذباتیت سے پُر مکے دیکھا کر اپنی سیاسی قدر کو ثابت کر پائیں۔
سیاست کو سرکس تو بنا دیا گیا ہے لیکن اس میں پرانے کرتبوں پر اب کوئی تالی نہیں بجاتا۔ شہباز شریف کو نواز شریف نے وہ سب کچھ دے دیا جس کے ذریعے وہ خود کو پنجاب کے ایڈمنسٹریٹر سے بہتر صورت میں ڈھالنے کے لیے استعمال کر سکتے تھے۔
اسمبلی کا فلور بھی ان کو دے دیا اور پارٹی کی کمان بھی۔ خود بھی خاموش ہو گئے اور اپنی بیٹی کو بھی نظریہ ضرورت کے تحت اوجھل رہنے کی پالیسی کا پابند کر دیا۔ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا بل ہو یا 2018 کے انتخابات میں سیاسی فراڈ کے الزامات کی گردان، ہر اہم معاملے پر شہباز شریف کے نکتہ نظر کو حاوی ہونے دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آپ نے دیکھا ہو گا کہ کس طرح جی ٹی روڈ مارچ والی مسلم لیگ، جی جی جی مسلم لیگ میں تبدیل ہو کر ناک کی سیدھ میں لیفٹ رائٹ قسم کا مارچ کرنے لگی۔ اپنے خلاف ہونے والی عدالتی اور نیبی کارروائیوں پر بھی شور نہیں مچایا اور صرف اس امید پر اپنی دنیا قائم کر لی کہ کوئی نئے انتخابات کے ذریعے راہ نجات تجویز کر پائے گا۔
وہ بہت سے معاملات جو شہباز شریف نے پارٹی اور پارلیمانی کمان حاصل کرنے کے بعد طے کیے نواز شریف کی منشا کے مطابق تھے۔ مگر چند ایک میں میاں نواز شریف نے ناگوار خاموشی اختیار کرتے ہوئے مجوزہ لائحہ عمل اس وجہ سے قبول کیا کہ بعد میں ان کا بھائی یہ نہ کہہ پائے کہ اس کے تدبر کو اہمیت نہیں دی گئی۔
لیکن ڈیڑھ سال میں کیا ہوا؟ ن لیگ پارلیمانی بحث سے عملا غائب ہو گئی، پنجاب میں تمام تر سیٹیں رکھنے کے باوجود مکمل طور پر غیر موثر رہی۔ نہ نیب سے چھٹکارہ ملا، نہ پی ٹی آئی کے تیر اور طعنے ختم ہوئے۔ نہ انتخابات کا شیڈول سامنے آیا اور نہ کوئی ایسی ضمانت کہ سیاسی منظر نامہ قومی اتفاق رائے کے ذریعے تبدیل ہو جائے گا۔
شہباز شریف نے ایک ایسی خاموشی اختیار کی جس کا کوئی سر پیر نہیں تھا۔ پارٹی اور پارلیمانی عہدے داران سکتے کی حالت میں رہ کر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا نہیں ہو سکتے اور پھر ایسا سکتہ جو زبان کو بھی مفلوج کر دے اس کی گنجائش تو بالکل بھی نہیں ہے۔
شہباز شریف نے ایک ایسے غیرموجود زمیندار کا کردار ادا کیا ہے جو اپنی فصلیں، گھر، ڈہور ڈنگر زمینوں پر کام کرنے والوں کے حوالے کر کے بیرون ملک گھومتا گھامتا رہتا ہے، یہ سوچتے ہوئے کہ اس کو زمین کی حفاظت کے لیے ہاتھ اور کپڑے مٹی میں رگڑنے کی ضرورت نہیں۔
کبھی کبھار ایسے زمیندار کامیاب رہتے ہیں لیکن اکثر ان کی زمینیں ہڑپ ہو جاتی ہیں۔ جائیدادوں پر دوسرے لوگ قابض ہو جاتے ہیں، ڈہور ڈنگر کسی اور کے پچھواڑے بند کر دیے جاتے ہیں۔ شہباز شریف کی خاموشی اور غیرموجودگی نے ن لیگ کا ایسا برا حال تو نہیں کیا لیکن افراتفری ہرسو پھیلی ہوئی ہے۔
پارٹی کی نہ میٹنگز ہوتی ہیں، نہ تجاویز سامنے لائی جاتی ہیں، نہ بحث مباحثے کا کوئی پلیٹ فارم ہے۔ فیصلہ سازی ایسے ہو رہی ہے جیسے آج کل کرونا وائرس سے ڈر کے بڑی کمپنیوں کے سی ای اوز بند کمروں سے ہدایات جاری کر رہے ہیں۔ شہباز شریف کا بطور سیاست دان عوام سے کوئی رابطہ نہیں، اپنے ووٹر سے تعلق اس سے کم۔ تحصیل اور ضلعی سطح سے رابطہ انتہائی محدود۔
شہباز شریف نے واپس آ کر وہ تمام کام کرنے ہیں جو ان کو پارٹی اور پارلیمانی قائد بننے کے بعد کرنے چاہیے تھے اور یہ ایک طویل فہرست ہے جس پر کام کا آغاز اسی وقت ہو سکتا ہے جب ذہن میں کوئی ابہام نہ ہو۔
شہباز شریف کو یہ بھی ثابت کرنا ہے کہ وہ لندن کے ٹھنڈے ماحول میں بیٹھ کر اپنی جماعت اور ووٹر کے لیے کچھ ایسا نظریہ ترتیب دے پائے ہیں جو موجودہ حالات میں نہ صرف ان کے جذبات اور احساسات کی نمائندگی کر سکتا ہے بلکہ سیاسی طور پر دوسری جماعتوں سے رابطہ بحال کرتے ہوئے ایک قومی اتحاد کی بنیاد بھی رکھ سکتے ہیں۔
اس وقت حزب اختلاف کی تقریباً تمام جماعتیں اپنے انداز اور الفاظ میں نئے انتخابات کا مطالبہ کر چکی ہیں۔ شہباز شریف اپنی واپسی کے بعد یہ یا اس قسم کا کوئی اور مطالبہ کتنے تسلسل اور توانائی کے ساتھ کر پائیں گے، ایک بنیادی چیلنج ہے جس کو مردانگی کے ساتھ زیردست کیے بغیر شہباز شریف پارٹی میں اپنی قیادت کو موثر نہیں کر پائیں گے۔
نواز شریف اور مریم نواز کا ووٹ کو عزت دو والا نعرہ ن لیگ میں شہباز شریف اور ان کے چند احتیاط پسند دوستوں کو پریشانی میں مبتلا کر دیتا تھا۔ اب یہ نعرہ ایک طویل عرصے سے سنائی نہیں دیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس نعرے کی غیرموجودگی میں شہباز شریف اپنی سیاسی اور پارلیمانی مرکزیت کو استعمال کرتے ہوئے کوئی اور اہم مرکزی نکتہ سامنے لاتے تاکہ ان کی جماعت کی توجہ مرکوز رہتی اور ان کی قیادت کی موجودگی کا احساس نظر کا دھوکہ نہ بنتا۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔
ان کی طرف سے خاموشی، خاموشی اور بس خاموشی ہی رہی۔ پاکستان واپسی کے بعد یہ خاموشی نہیں چلے گی۔ لبوں کو کشا اور زبان کو آزاد کرنا ہو گا۔ کچھ کہنا ہوگا۔ کچھ ایسا جو پارٹی کو اندرونی ابال اور بیرونی دباؤ دونوں سے نپٹنے کے لیے تیار کر پائے۔ واپسی کے بعد شہباز شریف کا سیاسی نعرہ کیا ہو گا ؟ کیا وہ نئے انتخابات کا مطالبہ کریں گے؟ کیا حزب اختلاف کو قومی اتحاد میں تبدیل کر کے سڑکوں کو احتجاج گاہیں بنائیں گے؟ اور اگر ان کو واپس آتے ہی دھر لیا گیا تو اندر سے وہ اپنی پارٹی اور کارکن کو کیا پیغام پہنچائیں گے؟
یہ وہ مرکزی سوال ہیں جن کا جواب حاصل کیے بغیر شہباز شریف کو لندن سے اسلام آباد کی بکنگ نہیں کروانی چاہیے۔ پاکستان کی سیاست ان کی مختصر غیرموجودگی اور طویل خاموشی کے دوران بڑی حد تک تبدیل ہو چکی ہے۔ اب اشاروں کنایوں، کنکھیوں اور چہ مگوئیوں سے کام نہیں چلے گا۔ باعمل بانصیب ہو گا اور بےعمل بےنصیب۔